کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 294
وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَ ابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا﴾ (آل عمران: ۷)
’’اللہ وہ ذات ہے جس نے آپ پر کتاب نازل کی جس میں محکم آیات ہیں جو ام الکتاب ہیں اور کچھ دوسری متشابہات ہیں ۔ جن لوگوں کے دلوں میں کج روی ہے وہ فتثہ پروری اور انجام کار کی تلاش میں متشابہ آیات کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ اس کے مطلب کو اللہ ہی جانتے ہیں ، جب کہ پختہ علم والے کہتے ہیں : ہم اس پر ایمان لائے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے۔‘‘
اس کے لحاظ سے محکم اور متشابہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس بارے چند اقوال ملاحظہ ہوں :
۱۔ محکم وہ ہے جس کا مقصد یا مراد واضح ہو جب کہ متشابہ وہ ہے جس کا علم صرف اللہ کو ہے۔
۲۔ محکم وہ ہے جس سے ایک ہی چیز مراد ہو اور متشابہ وہ ہے جس میں کئی چیزوں کا احتمال ہو۔
۳۔ محکم وہ ہے جو اپنا مستقل معنی رکھتا ہو اور اس کی وضاحت کی ضرورت نہ ہو جب کہ متشابہ وہ ہے جو مستقل مفہوم نہ رکھتا ہو بلکہ اس کے لیے وضاحت کی ضرورت پڑے۔
۴۔ محکم کے لیے قرآن میں ناسخ، حلال، حرام، حدود، فرائض، اور وعدہ و وعید کی آیات کی مثالیں بیان کی جاتی ہیں ۔
اور متشابہ کے لیے منسوخ اور اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات والی آیات ذکر کی جاتی ہیں جیسے
﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی.﴾ (طٰہٰ: ۵)
﴿کُلُّ شَیْئٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ﴾ (القصص: ۸۸)
﴿یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ﴾ (الفتح: ۱۰)
﴿وَ ہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ﴾ (الانعام: ۱۸)
﴿وَجَآئَ رَبُّکَ﴾ (الفجر: ۲۲)
﴿وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ﴾ (الفتح: ۶)
﴿رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ﴾ (البینۃ: ۸)