کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 293
اسی طرح سچ اور جھوٹ میں تمیز کرتا ہے۔ اسے اِحْکَامِ عَام کہا جاتا ہے۔ متشابہ: لغوی لحاظ سے تَشَابَہ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے ایک چیز کا دوسری چیز کے مشابہ ہو جانا۔ شبہ یہ ہوتا ہے کہ دو چیزوں کے درمیان کسی حقیقی یا معنوی مشابہت (تشابہ) کی وجہ سے فرق واضح نہ ہو سکے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ اُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِہًا﴾ (البقرہ: ۲۵) یعنی وہ پھل صرف رنگ میں ایک دوسرے کے مشابہ ہوں گے نہ ذائقے اور حقیقت میں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ عمدگی میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں گے۔ تَشَابُہ الکَلَام سے مراد ایسی کلام ہے جو ہم مثل اور متناسب ہو اور ایک دوسرے کی تصدیق کرے۔ اس مفہوم کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے پورے قرآن کو متشابہ کہا جاتا ہے۔ فرمایا: ﴿اللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ﴾ (الزمر: ۲۳) اس لحاظ سے قرآن مکمل طور پر متشابہ ہے یعنی کمال وعمدگی میں ایک دوسرے سے مشابہ ہے، اسی طرح معنی ومماثلت میں ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے۔ اسے تَشَابُہ عَام کہا جاتا ہے۔ محکم اور متشابہ اپنے اس مطلق معنی کے لحاظ سے ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں ، مضبوطی کے لحاظ سے پورا قرآن محکم (متقن) ہے۔ اس طرح ہم مثل بھی ہے یعنی ایک آیت دوسری کی تصدیق کرتی ہے چناں چہ محکم متقن کلام کے الفاظ اگرچہ مختلف ہوں لیکن معانی میں اتفاق ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن جب ایک جگہ کوئی حکم دے دے تو دوسری جگہ اس کے خلاف حکم نہیں دیتا، نواہی اور اخبار سے متعلق بھی یہی اسلوب ہے، اس لحاظ سے اس میں اختلاف ہے نہ تضاد۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا.﴾ (النساء: ۸۲) ۲۔ اِحْکَامِ خاص اور تَشَابُہ خاص: احکام خاص اور تشابہ خاص کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں ذکر کیا ہے: ﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ