کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 292
میدان کھلا ہوتا ہے حتیٰ کہ وہ ایسی آیات بھی کو محکم آیات کے معیار پر جانچتے ہیں تاکہ فروع کی بنیاد اصولوں کے مطابق اور جزئی مسائل کلیات کے تابع ہو جائیں لیکن خواہشات پرست ٹیڑھے ہی رہتے ہیں ۔ انہی محکم اصولوں اور فروعی مسائل میں عمومیت کی وجہ سے اسلام بنی نوع انسان کے لیے ہمیشہ باقی رہنے والا دین گیا ہے جو زمانے بیت جانے کے باوجود آج بھی دنیا اور آخرت میں بھلائی کا ضامن ہے چناں چہ احکام اور تشابہ کی دو قسمیں ہیں ۔ ۱۔ اِحکام عام اور تشابہ عام: المحکم لغوی لحاظ سے ’’حَکَمْتُ الدَّابَۃَ وَاحْکَمْتُ‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے ’’روکنا‘‘ حکم دو چیزوں کے درمیان فیصلہ کرنے کو کہا جاتا ہے جب کہ حاکم وہ ہوتا ہے جو ظالم کو روکے نیز حق وباطل اور سچ اور جھوٹ میں تمیز کر کے دو فریقوں میں فیصلہ کر دے۔ ’’حَکَمْتُ السَّفِیْہَ وَاَحْکَمْتُہُ‘‘ کا مطلب ہوتا ہے میں نے اس کی بے وقوفی کی وجہ سے تصرفات سے روک دیا۔ اور ’’حَکَمْتُ الدَّابَۃَ وَأَحْکَمْتُھَا‘‘ اس وقت بولا جاتا ہے جب آپ جانور کو لگام دے دیں کیوں کہ یہ لگام جانور کو اچھلنے اور بدکنے سے روکتی ہے۔ الحکمۃ بھی اسی سے ماخوذ ہے کیوں کہ حکمت (دانائی) بھی انسان کو غیر مناسب کاموں سے روکتی ہے۔ ’’اِحْکَامُ الشَّیْٔ‘‘ کا مطلب ہے کسی چیز کا مضبوط ہونا، جب کہ محکم مضبوط چیز کو کہا جاتا ہے۔ احکام الکلام (یعنی کلام کے محکم ہونے) کا مطلب ہے جب اس میں سچ اور جھوٹ کی وضاحت ہو جائے اور اوامر میں بھلائی اور سرکشی واضح ہو جائیں اور جو کلام ایسی ہو اسے محکم کہا جاتا ہے۔ اسی مفہوم کے اعتبار سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن کو محکم کہا ہے، فرمایا: ﴿الٓرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ.﴾ (ہود: ۱۱) نیز فرمایا: ﴿الٓرٰ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ.﴾ (یونس: ۱) چناں چہ قرآن سارے کا سارا محکم ہے یعنی یہ ایسا مضبوط اور فصیح کلام ہے جو حق وباطل،