کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 291
۱۴۔ لَعَلَّ اور عَسٰی کا استعمال: مخلوق کے کلام میں لعل اور عسٰی امید اور لالچ کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں جب ممکنہ امور میں شک ہو اور اس کام کے ہونے کے بارے کوئی یقینی بات نہ ہو لیکن جب ان کلمات کی نسبت اللہ کی طرف ہو تو اس کے معنی کے بارے تین اقوال ہیں ۔ ۱۔ یہ دنوں حصول اور وجوب پر دلالت کرتے ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف قطعی اور یقینی نسبت ہوتی ہے۔ ۲۔ ان دونوں سے ان کے اصل مفہوم کے مطابق ’’امید‘‘ ہی مراد لی جاتی ہے لیکن اس کا تعلق مخاطبین کے لحاظ سے ہوگا، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا.﴾ (الاسراء: ۷۹) ۳۔ لَعَلَّ اکثر مقامات پر تعلیل کے آتا ہے، جیسے: ﴿لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.﴾ (المائدہ: ۱۰۰) ۱۵۔ محکم اور متشابہ میں فرق: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر فرقان نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے نذیر بن جائے، اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ سبحانہ وتعالیٰ نے مخلوق کے لیے واضح ترین آیات، صحیح عقیدہ اور بنیادی اصول وضع فرمائے تاکہ ان کے عقائد درست رہیں اور صراط مستقیم ان کے لیے واضح ہو جائے۔ جن آیات کو سمجھنے میں اختلاف نہیں ہے وہ ام الکتاب ہیں ، ان میں امتِ اسلامیہ کی وحدت اور اس کی بنیادوں کی حفاظت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿کِتٰبٌ فُصِّلَتْ اٰیٰتُہُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِقَوْمٍ یَعْلَمُوْنَ.﴾ (فصلت: ۳) دین کے یہ اصول قرآن میں بعض مقامات پر لفظ، عبارت اور اسلوب کے کچھ اختلاف کے ساتھ آئے ہیں لیکن ان کا معنی ایک ہی ہوتا ہے۔ بعض آیات میں دوسری آیات کے ساتھ مشابہت اور کسی اختلاف کے بغیر معنوی موافقت پائی جاتی ہے اور ان اصولِ دینیہ کے علاوہ دین کے فروعی مسائل کی آیات میں عموم اور اشتباہ پایا جاتا ہے؛ جس کی وجہ سے مجتہد علماء کے سامنے