کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 290
﴿وَجَعَلُوا الْمَلٰٓئِکَۃَ الَّذِیْنَ ہُمْ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ اِِنَاثًا﴾ (الزخرف: ۱۹) اس معنی کی اس آیت سے بھی دلیل ملتی ہے: ﴿اِِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْآخِرَۃِ لَیُسَمُّوْنَ الْمَلٰٓئِکَۃَ تَسْمِیَۃَ الْاُنْثٰی.﴾ (النجم: ۲۷) ۲۔ اَوْجَد کے معنی میں ۔ اس وقت یہ ایک مفعول کی طرف متعدی ہوگا اَوْجَدَ (ایجاد کرنا) اور خَلْق (پیدا کرنا) میں فرق یہ ہے کہ خلق میں تقدیر کے معنی پائے جاتے ہیں خلق میں کسی معدوم چیز کو وجود میں لایا جاتا ہے، جس میں پہلے سے کوئی مادہ ہوتا ہے اور نہ ہی حسی سبب بخلاف ایجاد کے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ﴾ (الانعام: ۱) ظلمات اور نور کی وجہ اجرام ہیں ، اجرام ہوں گے تو نور ہوگا، نہ ہوں گے تو ظلمات ہوں گے۔ ۳۔ صیرورت کی طرح ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونا: اس صورت میں یہ دو مفعولوں کی طرف حسی لحاظ سے متعدی ہوگا، جیسے: ﴿الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا﴾ (البقرہ: ۲۲) یا عقلی لحاظ سے، جیسے: ﴿اَجَعَلَ الْآلِہَۃَ اِِلٰہًا وَاحِدًا﴾ (صٓ: ۵) ۴۔ اعتقاد کے معنی میں ، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ جَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَآئَ الْجِنَّ﴾ (الانعام: ۱۰۰) ۵۔ ایک چیز سے دوسری چیز پر حکم لگانا وہ حق ہو یا باطل۔ حق کی مثال: ﴿اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکِ وَ جَاعِلُوْہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ.﴾ (القصص: ۷) اور باطل کی مثال: ﴿وَ جَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِیْبًا﴾ (الانعام: ۱۳۶)