کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 289
نہیں کیا۔ اس کی دلیل یہ آیت ہے: ﴿وَ اِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ﴾ (الاسراء: ۷۳) یعنی انہوں نے آپ کو فتنے میں نہیں ڈالا تھا۔ اور جب کہا جائے ((لَمْ یَکَدْ یَفَعَل)) تو مطلب ہوتا ہے اس نے یہ کام کر لیا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فَذَبَحُوْہَا وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْنَ.﴾ (البقرہ: ۷۱) کیوں کہ انہوں نے ذبح کا فعل سرانجام دے دیا تھا۔ ۳۔ کاد نفی میں تنگی اور سختی کے ساتھ فعل کے واقع ہونے پر دلالت کرتا ہے، جیسے: ﴿فَذَبَحُوْہَا وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْنَ.﴾ (البقرہ: ۷۱) ۴۔ مضارع اور ماضی کی نفی کے درمیان فرق ہے مضارع کی نفی، نفی جب کہ ماضی کی نفی اثبات ہوتی ہے۔ پہلے کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان لَمْ یَکَدْ یَراھَا یعنی اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دیا ہوتا۔ دوسرے کی دلیل ﴿فَذَبَحُوْہَا وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْنَ.﴾ (البقرہ: ۷۱) ہے۔ جب کہ انہوں نے یہ کام کر لیا تھا۔ ۵۔ کَادَ کا ما بعد جب ما قبل سے متصل اور متعلق ہو تو نفی میں اثبات کا معنی ہوتا ہے، جیسے: آپ کہیں : ((مَا کِدتُّ اَصِلُ اِلٰی مَکَّۃَ حَتّٰی طُفْتُ بِالبَیْتِ الحَرَامِ۔)) ’’میں مکہ نہیں پہنچا یہاں تک کہ میں نے بیت اللہ کا طواف کر لیا۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فَذَبَحُوْہَا وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْنَ.﴾ (البقرہ: ۷۱) ۱۳۔ لفظ جَعَلَ کا استعمال: قرآن کریم میں لفظ جعل کئی معانی کے لیے آیا ہے۔ ۱۔ سمّی (نام رکھنا) کے معنی میں جیسے ﴿الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ.﴾ (الحجر: ۹۱) یعنی انہوں نے اسے جھوٹ کا نام دے دیا۔ اسی طرح