کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 287
اور جہاں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی صفات میں اس لفظ کو ذکر کیا ہے وہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ عادت یا صفت فطری طور پر انسان میں رکھ دی گئی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ کَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا.﴾ (الاسراء: ۱۱)
اسی طرح: ﴿اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا.﴾ (الاحزاب: ۷۲)
امام ابوبکر رازی نے قرآن میں استعمال ہونے والے لفظ کَانَ کو تلاش کر کے اس کے استعمال کی وجوہات بیان کی ہیں ، کہتے ہیں : قرآن میں کَانَ پانچ طرح سے استعمال ہوا ہے۔
۱۔ ازل اور ابد کے لیے، جیسے:
﴿وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا.﴾ (النساء: ۱۷۰)
۲۔ انقطاع کے لیے، جیسے:
﴿وَکَانَ فِی الْمَدِیْنَۃِ تِسْعَۃُ رَہْطٍ﴾ (النحل: ۴۸)
اور اصل میں کان کا یہی معنی ہوتا ہے جیسے آپ کہتے ہیں ، کَانَ زَیْدٌ صَالِحًا او فَقِیْرًا اَوْمَرِیْضًا وغیرہ۔
۳۔ حال کے معنی میں : جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ﴾ (آل عمران: ۱۱۰)
اسی طرح:
﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا.﴾ (النساء: ۱۰۳)
۴۔ استقبال کے لیے جیسے:
﴿یَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسْتَطِیْرًا.﴾ (الدھر: ۷)
۵۔ صَارَ کے معنی میں : جیسے
﴿وَ کَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْن.﴾ (البقرہ: ۳۴) (انظر البرہان للزرکشی ۴/۱۲۷)
کان نفی کے لیے بھی آتا ہے لیکن اس سے صحتِ خبر کی نفی مراد ہوتی ہے نہ کہ اس کے وقوع کی، اس طرح درست اور صحیح معلوم ہو جاتا ہے۔ جیسے ان آیات میں ہے: