کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 286
اسی لیے امام راغب، اللہ تعالیٰ کے فرمان:
﴿وَ کَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا.﴾ (الاسراء: ۲۷)
کے بارے کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے لفظ کان کے ساتھ تنبیہ کی ہے کہ شیطان کو جب سے وجود ملا وہ کفر میں ہی ڈوبا ہوا تھا۔
تیسرا: کَانَ ایسی چیز کے لیے آتا ہے جو زمانہ ماضی میں مبہم طور پر پائی جاتی ہو اور اس میں پہلے کے نہ ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی کسی نئے پیش آنے والے انقطاع کی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ (الاحزاب: ۵۰)
امام زمخشری نے یہ بات تفسیر الکشاف میں آیت: ﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾ (آل عمران: ۱۱۰)
کی تفسیر میں کہی ہے۔ ابن عطیہ سورۃ الفتح کی تفسیر میں کہتے ہیں : کان جب اللہ تعالیٰ کی صفات کے ساتھ آئے تو اس میں زمانہ کی شرط نہیں ہوتی۔
ان اقوال میں امام زمخشری کی بات درست ہے کیوں کہ کان سے جملہ کے معانی کو ماضی میں سمجھنے کا فائدہ حاصل ہوتا ہے جب کہ فی نفسہ اس سے کسی ایسی چیز کا پتا نہیں چلتا جس سے معنی کے منقطع ہونے یا باقی رہنے کا علم ہو سکے بلکہ اگر ان باتوں (یعنی انقطاع یا غیر انقطاع) کا فائدہ حاصل ہو تو وہ کسی اور دلیل سے ہوتا ہے۔
لہٰذا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی صفات وغیرہ کے بارے جو کَانَ کا لفظ آیا ہے، اسے اسی معنی پر محمول کیا جائے گا۔ جیسے:
﴿کَانَ اللّٰہُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا.﴾ (النساء: ۱۴۸)
﴿وَ کَانَ اللّٰہُ وَاسِعًا حَکِیْمًا.﴾ (النساء: ۱۳۰)
﴿وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا.﴾ (الاحزاب: ۵۹)
﴿وَکُنَّا بِکُلِ ّشَیْئٍ عٰلِمِیْنَ.﴾ (الانبیاء: ۸۱)
﴿وَ کُنَّا لِحُکْمِہِمْ شٰہِدِیْنَ.﴾ (الانبیاء: ۷۸)