کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 284
’’اپنے مفعول کو ثابت کرنے کے لحاظ سے اعطاء، ایتاء سے زیادہ قوی ہے، کیوں کہ اعطاء میں مطاوعت پائی جاتی ہے جیسے کہا جاتا ہے ’’اعطانِی فَعَطَوتُ‘‘ جب کہ ایتاء میں یہ نہیں کہا جاتا کہ آتانی فأتَیْتُ بلکہ یوں کہا جاتا ہے ’’اٰتانی فأخَذْتُ‘‘ وہ فعل جس میں مطاوعت ہو وہ اپنے مفعول کو ثابت کرنے میں اس فعل سے کمزور ہوتا ہے جس میں مطاوعت نہ ہو، مثلاً: آپ کہتے ہیں ((قَطَعْتُہ فَانْقَطَعَ)) ’’میں نے اسے توڑا تو وہ ٹوٹ گیا۔‘‘ اس سے پتا چلتا ہے فاعل کا فعل محل کے قبول کرنے پر موقوف تھا اگر وہ قبول نہ کرتا تو مفعول ثابت نہ ہوتا، اسی لیے قطعتۃ فما انقطع کہنا جائز ہے جب کہ جس فعل کی مطاوعت کرنے والا نہ ہو اس میں ضربتہ فانضرب یا ما انضرب کہنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح قتلہ فانقتل یا ما انقتل بھی جائز نہیں ہوگا کیوں کہ یہ افعال جب فاعل سے صادر ہوں تو اس کے محل میں مفعول ثابت ہو جاتا ہے اور جن افعال کے مطاوع نہیں ہوتے فاعل ان کے ساتھ مستقل ہوتا ہے۔ اسی لیے ایتاء، اعطاء سے زیادہ قوی ہے۔
قرآن کریم میں اس کے کچھ شواہد ہیں :
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا﴾ (البقرہ: ۲۶۹)
یعنی حکمت جب کسی جگہ پہنچ جائے تو وہ ہمیشہ رہتی ہے اور اس کی شان عظیم ہوتی ہے۔
نیز فرمایا:
﴿اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ.﴾ (الحجر: ۸۷)
اور اعطاء میں مثالیں :
﴿اِِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ.﴾ (الکوثر: ۱)
کوثر سے آگے بھی درجات ہیں ، یعنی جنت میں کوثر سے بلند مقامات پر جنتی منتقل ہوں گے۔
﴿حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّ ہُمْ صٰغِرُوْنَ.﴾ (التوبۃ: ۲۹)
جزیہ مسلمانوں کے قبول کرنے پر موقوف اور وہ بھی دل کی خوشی سے نہیں بلکہ مجبوراً دیتے ہیں ۔