کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 283
جگہ خبر لانے کا فائدہ انہیں اطاعت کے لازم ہونے کی اطلاع دینا ہے، گویا اس نے جہاد اور ایمان کے موجود ہونے کی خبر دی ہے۔
٭ دو عاملوں کے دو معمول ہوں تو ان دونوں پر عطف کرنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ جواز کے قائل استدلال کے طور پر یہ آیت پیش کرتے ہیں:
﴿اِِنَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِلْمُؤْمِنِیْنَ. وَفِی خَلْقِکُمْ وَمَا یَبُثُّ مِنْ دَابَّۃٍ اٰیٰتٌ لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ. وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَمَا اَنزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ رِّزْقٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَتَصْرِیْفِ الرِّیَاحِ اٰیٰتٌ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ.﴾ (الجاثیہ: ۳۔۵)
یہاں وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ…… لِّقَوْمٍ یَعْقِلُوْنَ کا عطف دو عاملوں کے دو معمولوں پر ہے، اسے منصوب پڑھا جائے یا مرفوع۔ اگر اسے اگر منسوب پڑھا جائے تو دو عامل اِنَّ اور فِی ہوں گے اور واؤ عاطف ان دونوں کے قائم مقام بنایا جائے گا؛ لہٰذا واؤ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ میں جر کا عمل کرے گی اور ’’آیات‘‘ میں نصب کا اور اگر اسے مرفوع پڑھا جائے تو عامل ’’مبتدا‘‘ اور ’’فی‘‘ ہوں گے۔ ’’واؤ‘‘ آیات میں رفع کا عمل کرے گی اور اِخْتِلَاف میں جر کا۔ یہ بات امام زمخشری نے بیان کی ہے۔ (انظر تفسیر ہذہ الایۃ فی ’’الکشاف‘‘ للزمخشری)
٭ حرفِ جر کو دوبارہ لائے بغیر ضمیر مجرور پر عطف کرنے کے جواز میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ جواز کے قائل لوگوں کی دلیل آیت
﴿وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ﴾ (النساء: ۱)
میں حمزہ کی قراء ت ہے جو ضمیر پر عطف کرتے ہوئے اَلْاَرْحَامَ کو جر دیتے ہیں ۔
اسی طرح آیت:
﴿وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ کُفْرٌ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ (البقرۃ: ۲۱۷)
میں الْمَسْجِدِ کا عطف بھی بِہ کی ضمیر پر ہے۔
۹۔ ایتاء اور اعطاء میں فرق:
قرآن میں استعمال ہونے والے لفظ ایتاء اور اعطاء میں بھی فرق ہے، جوینی کہتے ہیں :