کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 282
﴿لَوْلَا اَخَّرْتَنِیْ اِِلٰی اَجَلٍ قَرِیْبٍ فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ﴾ (المنافقون: ۱۰) میں ابوعمرو کے علاوہ تمام قراء نے اَکُنْ کو ساکن پڑھا ہے۔ خلیل اور سیبویہ اسے ’’عطف علی التوہم‘‘ کہتے ہیں ۔[1] کیوں کہ ’’لَوْلَا اَخَّرْتَنِی فَاَصَّدَّقَ‘‘ اور ’’اَخِّرْتَنِ اُصَّدِّقُ‘‘ کا معنی ایک ہی ہے۔ گویا یوں کہا گیا ہے: اِنْ اَخَّرْتَنِ اُصَّدِّقُ وَاَکُنْ مِنْ الصَّالِحِیْنَ۔ ایسے ہی فارسی نے آیت: ﴿اِنَّہٗ مَنْ یَّتَّقِ وَ یَصْبِرْ﴾ (یوسف: ۹۰) میں قنبل کی قراء ت راء کے سکون کے ساتھ بیان کی ہے، کیوں کہ اس میں مَنْ موصولہ شرط کے معنی میں ہے۔ ٭ خبر کا انشاء اور انشاء کا خبرپر عطف کرنے کے بارے علماء کا اختلاف ہے۔ اکثر علماء اسے جائز نہیں سمجھتے جب کہ علماء کی ایک جماعت اس کے جواز کی قائل ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ آیت کے الفاظ: ﴿وَبَشِّرْ الْمُؤْمِنِیْنَ.﴾ (الصف: ۱۳) کا عطف پچھلی آیت ﴿تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ﴾ (الصف: ۱۱) کے تُؤْمِنُوْنَ پر ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ تُؤْمِنُوْنَ اٰمِنُوا کے معنی میں ہے۔ یہ خبر ہے اور اس میں انشاء کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اس طرح (بَشّرِ) انشاء عطف انشاء پر درست ہے۔ گویا ایسے کہا گیا ہے کہ: ایمان لاؤ اور جہاد کرو اللہ تعالیٰ تمہیں ثابت قدم رکھے گا اور تمہاری مدد کرے گا۔ ((وبَشِّر یا رسولَ اللّٰہِ المومنین بِذٰلِکَ۔)) اور اے اللہ کے رسول! آپ ایمان والوں کو اس بات کی بشارت دے دیجیے۔ اور امر کی
[1] سیبویہ اور خلیل کی یہ عبارت کتب تفاسیر میں منقول ہے ’’کہ اس میں جزم شرط کے وہم کی وجہ سے ہے جس پر تمنی کے الفاظ دلالت کر رہے ہیں لیکن قرآن کی تفسیر میں لفظ ’’وہم‘‘ غیر مناسب ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ ’’عطف علی التوہم‘‘ کی بجائے ’’عطف علی المعنٰی‘‘ کہا جائے، جیسا کے اگلی عبارت اِنْ اَخَّرْتَنِ اُصَّدِّقُ وَاَکُنْ میں صراحت ہے۔