کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 281
یہاں المنفقون (اسم) نہیں لایا گیا جب کہ ایمان کو اسم سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسے: ﴿اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ﴾ (الحجرات: ۱۵) اس کی وجہ یہ ہے کہ انفاق ایک فعلی امر ہے، جس میں حدث اور تجدد واقع ہوتا رہتا ہے۔ جب کہ ایمان کی ایک حقیقت ہے گزرے ہوئے زمانہ میں ثبوت اور دوام کا تقاضا کرتی ہے۔ ماضی میں تجدد سے مراد کسی چیز کا ایک کے بعد دوسری مرتبہ حصول ہوتا ہے اور مضارع میں تجدد سے مراد کسی کام کا بار بار ہونا ہے اور اس میں فعل کا مضمر ہونا ظاہر ہونے کی طرح ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا سلام فرشتوں کے سلام سے زیادہ مؤثرتھا، جس کا ذکر اس آیت میں ہے: ﴿اِِذْ دَخَلُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا سَلَامًا﴾ (الذاریات: ۲۵) یہاں سلٰماً کو نصب دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ مصدر فعل کے قائم مقام ہے اور اس کی اصل عبارت یوں بنتی ہے ((نُسَلِّمُ عَلَیْکَ سَلَامًا)) اس عبارت سے ان کے سلام کے حدوث کا پتا چلتا ہے، بخلاف ابراہیم علیہ السلام کے جواب کے قَالَ سَلٰمٌ یہاں سلٰمٌ مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے اور اس کی خبر محذوف ہے۔ اس کا مطلب ہے عَلَیْکُمْ سَلَامٌ۔ اس سے سلامتی کے ثبوت پر دلالت ہوتی ہے۔ گویا ابراہیم علیہ السلام کا ارادہ یہ تھا کہ اللہ کے حکم کے مطابق انہیں ان سے بہتر انداز میں سلام کا جواب دیں اور اس میں مہمانوں کی عزت بھی تھی۔ ۸۔ عطف: اس کی تین اقسام ہیں : ۱۔ لفظ پر عطف: اصول یہی ہے کہ لفظ پر عطف کیاجائے۔ ۲۔ محل پر عطف: الکسائی نے فرمان باری تعالیٰ ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا وَ الصّٰبِئُوْنَ﴾ (المائدہ: ۶۹) میں الصّٰبِئُوْنَ کا عطف اِنّ اور اس کے اسم کے محل پر کیا ہے اور وہ مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے، اسی لیے الصّٰبِئُوْنَ بھی مرفوع ہے۔ ۳۔ معنی پر عطف: جیسے آیت: