کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 280
﴿قُلِ اللّٰہُ یُنَجِّیْکُمْ مِّنْہَا وَ مِنْ کُلِّ کَرْبٍ﴾ (الانعام: ۶۴) سوال: ﴿قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْکُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ﴾(الانعام: ۶۳) کے جواب میں ہے۔ ٭ کبھی حالات کے تقاضوں کے مطابق جواب، سوال سے کم دیا جاتا ہے ﴿ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ہٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ﴾ (یونس: ۱۵) کے جواب میں کہا گیا ﴿قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اُبَدِّ لَہٗ مِنْ تِلْقَآیِٔ نَفْسِیْ﴾ (یونس: ۱۵) تبدیلی چوں کہ نیا بنانے سے آسان ہوتی ہے لہٰذا جب تبدیل کرنا ممکن نہیں ، تو نیا بنانا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ ٭ سوال میں جب کسی چیز کی معرفت مطلوب ہو تو وہ دوسرے مفعول کی طرف کبھی بلاواسطہ اور کبھی عن کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے اور زیادہ تر ایسے ہی ہوتا ہے، جیسے: ﴿وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ﴾ (الاسراء: ۸۵) ٭ جب کسی مال وغیرہ کا مطالبہ کیا جایا رہا ہو تو وہ بلاواسطہ یا مِن کے ساتھ مذکور ہوتا ہے، زیادہ تر بلاواسطہ ہی آتا ہے، جیسے: ﴿وَاسْاَلُوْا مَا اَنفَقْتُمْ﴾ (الممتحنہ: ۱۰) من کے ساتھ متعدی ہونے کی مثال ہے۔ ﴿وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ﴾ (النساء: ۳۲) ۷۔ اسم اور فعل کا استعمال: اسمِ ثبوت اور استمرار جب کہ فعل تجدد اور کسی کام کے ہونے کو ثابت کرتا ہے اور دونوں کی اپنی اپنی جگہ ہے، ان میں سے کوئی ایک دوسرے کی جگہ نہیں آسکتا، مثلاً: انقاق (خرچ کرنے) کو فعل سے تعبیر کیا ہے، جیسے: ﴿الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَ الضَّرَّآئِ﴾ (آل عمران: ۱۳۴)