کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 28
علوم القرآن‘‘ ملا تھا۔ ان میں سے پندرہ جلدیں غیر مرتب اور عدم تسلسل کا شکار تھیں ۔ اس کتاب میں مولف کا اسلوب کچھ اس طرح تھا کہ وہ مصحف کی ترتیب سے ایک آیت لے کر اس میں قرآنی علوم کو بیان کرتے اور پھر ہر ایک نوع کے لیے الگ عنوان قائم کرتے۔ وہ ہر آیت کو عام عنوان دیتے، مثلاً یہ کہتے ’’القول فی قولہ عزوجل‘‘ پھر اس کے بعد آیت ذکر کرتے، پھر اس عنوان کے ذیل میں کہتے: ’’القول فی الاعراب، اس کے تحت نحوی اور لغوی باتیں ذکر کرتے۔ پھر کہتے ہیں : القول فی المعنی والتفسیر، اس میں نقلی اور عقلی دلائل سے شرح کرتے، پھر لکھتے ہیں : ’’القول فی الوقف والتمام‘‘ یہاں وہ جائز اور ناجائز اوقاف کا بیان کرتے ہیں ، بعض دفعہ قراء ت سے متعلق ایک مستقل عنوان قائم کرتے ہوئے اسے القول فی القراء ات کا نام دیتے ہیں اور کبھی وہ اس آیت میں پائے جانے والے احکام کو بیان کرتے ہیں ۔ اس طرز واسلوب پر علوم القرآن کی تدوین کرنے والے پہلے شخص الحوفی ہو سکتے ہیں ، ان کی تصنیف خاص طرز پر ہے جس کا ابھی ذکر ہوا ہے۔ ان کی وفات ۳۳۰ ہجری میں ہوئی۔ پھر ابن الجوزی (المتوفی ۵۹۷ ہجری) نے اپنی کتاب ’’فنون الافنان فی عجائبِ علوم القرآن‘‘ میں اسی اسلوب کو اپنایا۔ [1] ان کے بعد بدرالدین زرکشی (المتوفی ۷۹۴ ہجری) نے ایک بہت ہی عمدہ کتاب ’’البرہان فی علوم القرآن‘‘ کے نام سے تالیف کی۔ پھر جلال الدین البلقینی (المتوفی ۸۲۴ ہجری) نے اپنی کتاب ’’مواقع العلوم من مواقع النجوم‘‘ میں مذکورہ کتاب پر بعض اضافی باتیں لکھیں ۔ ان کے بعد جلال الدین سیوطی (المتوفی ۹۱۱ ہجری) نے اپنی مشہور کتاب ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ لکھی۔ان کے علاوہ جدید ترقی یافتہ دور میں بھی علوم القرآن کو دیگر علوم سے کوئی کم حصہ نہیں ملا، فکر اسلامی کی تحریک سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے قرآنی موضوعات کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے بہترین انداز اختیار کرتے ہوئے درجِ ذیل کتابیں لکھیں :
[1] اس کا نا مکمل قلمی نسخہ مکتبہ تیموریہ میں موجود ہے۔