کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 279
٭ الشح والبخل: الشح، بخل سے شدید ہوتا ہے کیوں اس میں بخل اور حرص دونوں چیزیں ہوتی ہیں اور یہ عادت بن جاتی ہے۔
٭ السبیل والطریق: سبیل عام طور پر خیر کے رستے پر بولا جاتا ہے جب کہ طریق سے خیر مراد نہیں لی جاتی جب تک اس کے ساتھ کوئی وصف یا اضافت نہ ہو، جیسے:
﴿یَہْدِیْ اِِلَی الْحَقِّ وَاِِلٰی طَرِیْقٍ مُسْتَقِیْمٍ.﴾ (الاحقاف: ۳۰)
علامہ راغب اصفہانی ’’مفردات‘‘ میں کہتے ہیں : سبیل وہ رستہ ہے جس میں سہولت اور آسانی ہو، یعنی طریق سے خاص ہے۔
٭ مَدّ اور اَمَدَّ: امام راغب کہتے ہیں امداد (اَمَدّ) کا استعمال زیادہ تر پسندیدہ چیز میں ہوتا ہے۔ جیسے:
﴿وَاَمْدَدْنَاہُمْ بِفَاکِہَۃٍ﴾ (الطور: ۲۲)
اور مَدَّ کا استعمال مکروہ میں ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ نَمُدُّلَہٗ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا.﴾ (مریم: ۷۹)
۶۔ سوال اور جواب:
٭ اصولی طور پر جواب سوال کے مطابق ہونا چاہیے لیکن کبھی کبھار جواب سوال کے تقاضے سے ہٹ کر ہوتا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ سوال اس طرح ہونا چاہیے تھا۔ بلاغہ کی زبان میں اسے ’’اسلوب الحکیم‘‘ کا نام دیا جاتا ہے اور اس کی مثال میں یہ آیت پیش کی جاتی ہے۔
﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّۃِ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ﴾ (البقرہ: ۱۸۹)
لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ چاند دھاگے کی طرح باریک سا نمودار ہو کر آہستہ آہستہ بھر جاتا ہے، پھر کم ہوتے ہوتے پہلی حالت پر چلا جاتا ہے تو انہیں اس کی حکمت کے بارے بتایا گیا نیز انہیں تنبیہ کی گئی کہ سوال وہ نہیں جو انہوں نے پوچھا بلکہ یہ سوال اہم تھا۔
٭ کبھی کسی ضرورت کے تحت جواب میں سوال سے زیادہ عمومیت پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ آیت: