کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 278
﴿وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ﴾ (البقرہ: ۱۸۴) یعنی ہر آدمی پر ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا ضروری ہے۔ ۵۔ وہ الفاظ جنہیں مترادف سمجھا جاتا ہے لیکن وہ مترادف نہیں ہوتے: ٭ الخوف والخشیۃ: الخشیۃ خوف کا اعلیٰ درجہ ہے اور خوف سے زیادہ سخت ہے یہ ’’شَجَرۃٌ خشیۃ‘‘ (سوکھا درخت) سے ماخوذ ہے اور یہ وہ درخت ہوتا ہے جو بالکل ناکارہ ہو چکا ہو۔ جب کہ خوف عرب لوگوں کے قول: ناقۃٌ خَوفَاء (بیمار اونٹنی) سے ماخوذ ہے تو بیماری ایک نقص ہے اس سے چیز بالکل ختم نہیں ہوتی نیز خشیت اس کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے جس سے ڈرایا جا رہا ہوتا ہے گو کہ ڈرنے والا بھی قوی اور طاقت ور ہوتا ہے۔ یعنی خشیت ایک ایسا خوف ہے جس میں تعظیم شامل ہوتی ہے جب کہ خوف ڈرنے والے کی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے خواہ ڈرانے والا معاملہ بہت تھوڑا سا ہو۔ خشیۃ کا مادہ (خ، ش، ی ہے) ان تینوں حروف کو جس حالت میں بھی پھیریں گے اس میں عظمت ہی ظاہر ہوگی مثلاً ش، ی، خ (شیخ) اس کا معنی ہے۔ بڑا، سردار۔ خ، ی، ش (خیش) موٹے لباس کو کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لفظ خشیۃ عموماً اللہ تعالیٰ کے حق میں وارد ہوا ہے، مثلاً: ﴿اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا﴾ (فاطر: ۲۸) لیکن اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿یَخَافُوْنَ رَبَّہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ﴾ (النحل: ۵۰) میں خوف کا لفظ آیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ فرشتوں کی طاقت اور مضبوط تخلیق کو ذکر کرنے کے بعد ان کے وصف کے طور پر آیا ہے، ان کی طرف خوف کی نسبت اس لیے ہے کہ اگرچہ یہ بہت مضبوط اور سخت ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے کمزور ہیں ۔ پھر اس کے بعد فوقیت کا ذکر کیا گیا ہے جس سے عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ اس طرح دونوں چیزوں کو ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے جن کے ضمن میں خشیت بھی موجود ہے لیکن اس سے ان کی طاقت اور قوت میں کمی نہیں آتی اور وہ دونوں چیزیں ہیں اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی تعظیم۔