کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 277
پھر دن کے طلوع اور غروب ہونے کے لحاظ سے جمع لایا گیا ہے جیسے: ﴿فَلَآ اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ﴾ (المعارج: ۴۰)[1] ۴۔ جمع کے مقابلہ میں جمع یا مفرد کو ذکر کرنا: ٭ جمع کے مقابلہ میں جمع لانے کا مقصد ہر فرد کا مقابلہ ظاہر کرنا ہوتا ہے، جیسے: ﴿اِِنِّی کُلَّمَا دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَ لَہُمْ جَعَلُوْا اَصَابِعَہُمْ فِیْ اٰذَانِہِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُمْ﴾ (نوح: ۷) (یہاں جمع کے مقابلہ میں ’’ثیاب‘‘ جمع آیا ہے۔) یعنی ہر ایک نے اپنے آپ کو اپنے کپڑے سے ڈھانپ لیا۔ اسی طرح آیت: ﴿وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَہُنَّ﴾ (البقرہ: ۲۳۳) (یہاں ’’وَالِدٰتُ ‘‘ جمع کے مقابلہ میں اولاد بھی جمع آیا ہے۔) یعنی ہر ماں اپنے بچے دودھ پلائے۔ ٭ کبھی ایسے ہوتا ہے کہ محکوم علیہ کے ہر ہر فرد پر حکم لگانے کے لیے بھی جمع ذکر کر دی جاتی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَائَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃً﴾ (النور: ۴) یعنی ہر ایک کو اس تعداد میں کوڑے لگاؤ۔ (یہ نہیں کہ سب کو ملا کر اسی کوڑے لگانے ہیں ) ٭ کبھی مذکورہ بالا دونوں باتوں کا احتمال ہوتا ہے پھر دونوں میں سے کسی ایک کی تعیین کے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جمع کے مقابلے میں مفرد لانے کی وجہ یہ ہے کہ اکثر ایسے ہوتا ہے کہ مفرد کو عموم کی ضرورت نہیں ہوتی اور کبھی ضرورت ہوتی ہے، جیسے:
[1] ابوالحسن الاخفش نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے ان تمام مفرد اور جمع الفاظ کو بیان کیا ہے جو قرآن میں وارد ہوئے ہیں ، اسی طرح جو مفرد الفاظ قرآن میں جمع یا جمع کے الفاظ مفرد بیان ہوئے ہیں ، انہیں بھی ذکر کیا ہے۔ دیکھیے: الاتقان: ۱/۱۹۳۔