کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 276
جہاں بھی ’’الریاح‘‘ کا لفظ ہے اس سے رحمت اور جہاں ’’الریح‘‘ کا لفظ ہے اس سے عذاب مراد ہے۔
اسی لیے حدیث میں آتا ہے:
((اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا رِیَاحًا وَلَا تَجْعَلْھَا رِیْحًا۔))
اورجہاں اس ضابطے سے ہٹ کر آئے وہاں کوئی خاص حکمت ہوتی ہے۔[1]
٭ اسی طرح لفظ ’’النُّوْرِ‘‘ کو مفرد اور ’’الظُّلُمٰتِ‘‘ کو جمع، سبیل الحق کو واحد اور سبیل الباطل کو جمع ذکر کیا جاتا ہے؛ کیوں کہ راہ حق ایک ہی ہے جب کہ باطل کے بہت سے رستے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ’’ولی المومنین‘‘ کو مفرد کے صیغہ جب کہ ’’اولیاء الکافرین‘‘ کو جمع کے صیغے سے بیان فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓئُہُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَہُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ﴾ (البقرہ: ۲۵۷)
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ﴾ (الانعام: ۱۵۳)
٭ لفظ مشرق اور مغرب کو مفرد تثنیہ اور جمع تینوں طرح استعمال کیا جاتا ہے، حجت بیان کرنا یا شرق وغرب کے کنارے کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہو تو مفرد لایا جاتا ہے، مثلاً:
﴿رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ﴾ (المزمل: ۹)
سردی اور گرمی میں سورج کے طلوع ہونے کی جگہوں کے اعتبار سے تثنیہ لایا گیا ہے:
﴿رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ.﴾ (الرحمٰن: ۱۷)
[1] جیسے سورت یونس کی آیت نمبر ۲۲ میں ہے ﴿وَ جَرَیْنَ بِہِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَۃٍ﴾ (یونس: ۲۲) یہاں ریح کو مفرد لانے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ (۱) لفظی طور پر کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان جَائَ تْھَا رِیْحٌ عَاصِفٌ کے مقابلہ میں ہے۔ (۲) معنوی وجہ سے کہ یہاں رحمت کی تکمیل ہو رہی ہے جو حرف الریح کو مفرد لانے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ کشتی ایک ہوا سے ہی چلتی ہے، اگر مختلف سمتوں سے ہوائیں چلیں تو یہ تباہ ہو جائے گی۔