کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 275
﴿وَّاَکْوَابٌ مَّوْضُوعَۃٌ .﴾ (الغاشیہ: ۱۴)
اس کے برعکس کچھ الفاظ ایسے ہیں جو قرآن میں مفرد ہی استعمال ہوئے ہیں اور جب ان کی جمع مراد لینا مقصودہو تو اس کے ساتھ لفظ مثل لگا کر جمع بیا ن کی گئی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ﴾ (الطلاق: ۱۲)
یہاں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سبع ارضین نہیں کہا کیوں کہ اس سے عبارت میں اختلال اور سختی واقع ہوجاتی۔
٭ اسی طرح لفظ ’’السماء‘‘ کبھی جمع اور کبھی مفرد کے صیغہ کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے اور یہ احوال کی بناء پر ہوتا ہے، جب تعداد بیان کرنا مقصود ہو تو عظمت ووسعت کی غرض سے جمع، اور جب صرف جہت کا بیان مقصود ہو تو مفرد لفظ سے استعمال کیا جاتا ہے۔ جمع کی مثال:
﴿سَبَّحَ لِلَّہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ﴾ (الحشر: ۱)
مفرد کی مثال:
﴿ئَ اَمِنتُمْ مَنْ فِی السَّمَآئِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الَارْضَ فَاِِذَا ہِیَ تَمُوْرُ.﴾ (الملک: ۱۶)
٭ لفظ ’’الریح‘‘ کو بھی مفرد اور جمع دونوں طرح لایا جاتا ہے۔ رحمت کا بیان ہو رہا ہو تو جمع کے ساتھ اور اگر عذاب کا بیان ہو رہا ہو تو مفرد سے ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ رحمت کی ہوائیں مختلف صفات اور منافع کی حامل ہوتی ہیں اور کبھی ایک دوسرے کے مقابل بھی ہوتی ہیں تاکہ حیوانات اور نباتات کے لیے نفع مند ثابت ہوں ۔ اس لیے جب رحمت کا بیان ہو رہا ہو تو جمع کے ساتھ اور اگر عذاب کا بیان ہو رہا ہو تو مفرد سے ذکر کیا جاتا ہے۔ اس لیے رحمت کے لیے ’’ریاح‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جب کہ عذاب میں ایک ہی طرف سے ہوا آتی ہے اور اس کے مقابل یا روکنے کے لیے کوئی نہیں ہوتا اس لیے اسے واحد کے صیغے کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔
ابن ابی حاتم وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قرآن میں