کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 274
(یہاں رسول پہلی جگہ نکرہ اور دوسری جگہ معرفہ ہے لیکن دونوں جگہ ایک ہی رسول مراد ہے اور دوسری جگہ صرف یاد دہانی کے لیے ہے۔) ۴۔ اگر پہلا اسم معرفہ اور دوسرا نکرہ ہو تو اس کا مفہوم قرینہ کے مطابق ہوگا۔ بسااوقات قرینہ دونوں میں تغایر ظاہر کرتا ہے، جیسے: ﴿وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَۃٍ﴾ (الروم: ۵۵) (پہلی جگہ الساعۃ سے مراد قیامت جب کہ دوسری جگہ ساعۃ سے مراد عام وقت کی ایک گھڑی ہے۔) جب کہ بعض اوقات قرینہ ان دونوں میں اتحاد کو ظاہر کرتا ہے، جیسے: ﴿وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ. قُرآنًا عَرَبِیًّا﴾ (الزمر: ۲۷۔۲۸) (یہاں پہلی جگہ القرآن معرفہ اور دوسری جگہ قراناً نکرہ ہے لیکن مراد ایک ہی ہے۔) ۳۔ مفرد اور جمع: قرآن کریم کے بعض مفرد الفاظ کسی خاص معنی کے لیے جب کہ جمع کے الفاظ معین اشارہ کے لیے ہوتے ہیں یا کے جمع کے الفاظ مفرد اور مفرد الفاظ جمع پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض الفاظ قرآن میں جمع ہی آتے ہیں اور جب مفرد استعمال کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس وقت ان کا مترادف لفظ استعمال کیا جاتا ہے، جیسے: لفظ ’’اَللُّبّ‘‘ یہ جمع کے صیغے کے ساتھ ہی استعمال ہوا ہے، مثلاً: ﴿اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِاُوْلِی الْاَلْبَابِ﴾ (الزمر: ۲۱) قرآن میں اس کا مفرد استعمال نہیں بلکہ مفرد کی جگہ (اس کا مترادف) ’’القلب‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مثلاً: ﴿اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ﴾ (ق: ۳۷) اس طرح لفظ ’’الکوب‘‘ بھی مفرد کی بجائے جمع میں آیا ہے۔ مثلاً: