کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 273
جب کسی اسم کو دو مرتبہ ذکر کیا جائے تو اس کی چار حالتیں ہوتی ہیں : ۱۔ دونوں معرفہ ہوں گے۔ ۲۔ دونوں نکرہ ہوں گے۔ ۳۔ پہلا نکرہ ہوگا اور دوسرا معرفہ۔ ۴۔ پہلا معرفہ ہوگا اور دوسرا نکرہ۔ ان کی تفاصیل حسبِ ذیل ہے۔ ۱۔ اگر دونوں معرفہ ہوں تو دوسرا بھی اکثر پہلی چیز ہی مراد ہوتا ہے، جیسے: ﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم. صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ.﴾ (الفاتحہ: ۵۔۶) (یہاں صراط دونوں جگہ معرفہ ہے اور دونوں جگہ ایک ہی چیز مراد ہے۔) ۲۔ اگر دونوں نکرہ ہوں تو دوسرا اسم پہلے کے علاوہ مراد ہوگا، مثلاً: ﴿اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّن ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفًا وَّ شَیْبَۃً﴾ (الروم: ۵۴) اس آیت میں پہلے ضعف سے مراد نطفہ، دوسرے سے بچپن اور تیسرے سے بڑھاپا مراد ہے۔ جب کہ معرفہ اور نکرہ کی مذکور دونوں اقسام کی مثال ان آیات میں موجود ہیں : ﴿فَاِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا. اِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا.﴾ (الانشراح: ۵۔۶) اس لیے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک تنگی دو آسانیوں پر غالب نہیں آتی، کیوں کہ العسر کو دوسری جگہ بھی الف لام کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بھی پہلی عسر ہی مراد ہے (نہ کہ کوئی اور) جب کہ دوسری یُسر (خوشحالی) پہلی کے علاوہ ہے کیوں کہ اسے الف لام کے بغیر لایا گیا ہے۔ ۳۔ اگر پہلا اسم نکرہ ہو اور دوسرا معرفہ تو دوسرے کو عہد (یاد دہانی) پر محمول کر کے پہلا ہی مراد لیا جائے گا۔ جیسے: ﴿کَمَا اَرْسَلْنَا اِِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا. فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ﴾ (المزمل: ۱۵۔۱۶)