کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 272
﴿وَ الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: ۶۹) ٭ اختصار کے لیے بھی لیے موصول کا استعمال ہوتا ہے، جیسے: ﴿لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰی﴾ (الاحزاب: ۶۹) اگر یہاں موسیٰ علیہ السلام کو تکلیف دینے والوں کے نام ذکر کیے جاتے تو بات لمبی ہو جاتی۔ (لہٰذا اختصار کے لیے صرف الَّذِیْنَ موصول کو استعمال کیا گیا۔) ٭ جس چیز کا ذکر کیا گیا ہو اس کی طرف اشارہ کرنے کے لیے الف لام لا کر معرفہ بنایا جاتا ہے، جیسے: ﴿اللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہِ کَمِشْکَاۃٍ فِیْہَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ الزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ﴾ (النور: ۳۵) ٭ معہود ذہنی کو بیان کرنے کے لیے بھی الف لام کا استعمال کیا جاتا ہے، جیسے: ﴿لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ﴾ (الفتح: ۱۸) ٭ معہود حضوری (جو چیز موجود ہو) کی طرف اشارہ کرنے کے لیے بھی الف لام کو استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے: ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ (المائدہ: ۳) ٭ تمام افراد کو شامل کرنے کے لیے بھی الف لام لایا جاتا ہے، جیسے: ﴿اِِنَّ الْاِِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ.﴾ (العصر: ۲) ٭ افراد کی تمام تر خصوصیات بیان کرنے کے لیے الف لام کا استعمال، جیسے: ﴿ذٰلِکَ الْکِتٰبُ﴾ (البقرہ: ۲) یعنی یہ کتاب ہدایت کے لحاظ سے ایک کامل کتاب ہے، نیز تمام کتب سماویہ کی تمام تر خصوصیات اس میں پائی جاتی ہیں ۔ ٭ ماھیت، حقیقت اور جنس کی تعریف کے لیے بھی الف لام استعمال کیا جاتا ہے، جیسے: ﴿وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ﴾ (الانبیاء: ۳۰)