کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 270
﴿وَاللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَابَّۃٍ مِّنْ مَّائٍ﴾ (النور: ۴۵)
یعنی جانوروں کی تمام انواع میں ہر نوع پانی کی تمام انواع میں سے ایک نوع سے پیدا کی۔ جانوروں میں سے ہر فرد نطفے کے تمام اجزاء میں سے ہر جزء سے پیدا کیا گیا ہے۔
٭ جب تعظیم بیان کرنا مقصود ہو تو نکرہ آتا ہے، جیسے:
﴿فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ﴾ (البقرہ: ۲۷۹)
یہاں حرب سے بڑی لڑائی (جنگ) مراد ہے۔
٭ جب تکثیر کا معنی بیان کرنا مقصود ہو، جیسے:
﴿اَئِنَّ لَنَا لَاَجْرًا﴾ (الشعراء: ۴۱)
یعنی بہت زیادہ اجر مراد ہے۔
٭ جہاں تعظیم اور کثرت دونوں بیان کرنا مقصود ہو، مثلاً:
﴿وَ اِنْ یُّکَذِّبُوْکَ فَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ﴾ (فاطر: ۴)
یعنی بڑے بڑے رسول اور وہ بھی کثیر تعداد میں (حالانکہ رُسُلٌ نکرہ ہے)
٭ تحقیر بیان کرنے کے لیے، جیسے:
﴿مِنْ اَیِّ شَیْئٍ خَلَقَہٗ.﴾ (عبس: ۱۸)
یعنی ایک کمزور اور حقیر ترین چیز سے پیدا کیا۔
٭ قلت کا معنی بیان کرنے کے لیے، جیسے:
﴿وَعَدَ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَ مَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ﴾ (براۃ: ۷۲)
یعنی اللہ کی تھوڑی سی رضا جنتوں سے بھی بڑی ہے کیوں کہ یہ ہر سعادت کا سرچشمہ ہے۔
معرفہ:
معرفہ کا استعمال بھی چند مقامات پر ہوتا ہے لیکن اس کا استعمال معرفہ کی اقسام کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔