کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 27
تفسیرِ قرآن کی ابتداء زبانی سننے اور روایت کرنے سے ہوئی تھی، پھر حدیث کے ابواب میں ایک باب کی حیثیت سے اس کی تدوین ہوئی، اس کی کوئی الگ مستقل اور منفرد حیثیت نہ تھی۔ پھر اس کے بعد تفسیر بالماثور اور پھر تفسیر بالرائے وجود میں آئی۔ علمِ تفسیر کے ساتھ قرآن کریم کے علم سے تعلق رکھنے والے مختلف امور کو مختلف موضوعات میں لکھا گیا جن کی ضرورت ہر مفسر کو پیش آتی ہے۔ چناں چہ امام بخاری کے استاد علی بن مدینی (المتوفی ۲۳۴ ہجری) نے اسبابِ نزول پر لکھا۔ ابو عبید قاسم بن سلام (المتوفی ۲۲۴ ہجری) نے ناسخ ومنسوخ اور قراء ات کے متعلق لکھا۔ جب کہ ابن قتیبہ (المتوفی ۲۷۶ ہجری) نے مشکل القرآن کے موضوع پر قلم اٹھایا۔ یہ تمام لوگ تیسری صدی ہجری کے علماء میں سے تھے۔ اس کے بعد محمد بن خلف بن مرزبان (المتوفی ۳۰۹ ہجری) نے ’’الحاوی فی علوم القرآن‘‘ تالیف کی۔ ابوبکر محمد بن قاسم انباری (المتوفی ۳۲۸ ہجری) نے علوم القرآن پر کتاب لکھی۔ ابوبکر سبحستانی (المتوفی ۳۳۰ ہجری) نے قرآن کے غریب الفاظ پر کتاب تالیف کی اور محمد بن علی ادفوی (المتوفی ۳۸۸ ہجری) نے ’’الاستغناء فی علوم القرآن‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔ یہ حضرات چوتھی صدی کے علماء میں سے تھے، پھر اس کے بعد تالیفات کا سلسلہ چل پڑا، چناں چہ ابوبکر الباقلانی (المتوفی ۴۰۳ ہجری) نے اعجاز القرآن، علی بن ابراہیم بن سعید الحوفی (المتوفی ۴۳۰ ہجری) نے اعراب القرآن، ماوردی (المتوفی ۴۵۰ ہجری) نے امثال القرآن، العز بن عبدالسلام (المتوفی ۶۶۰ ہجری) نے مجاز القرآن، علم الدین سخاوی (المتوفی ۶۴۳ ہجری) نے علم القراء ات اور ابن قیم (المتوفی ۷۵۱ ہجری) نے اقسام القرآن تالیف کی۔ یہ تمام تالیفات علوم القرآن کی کسی ایک قسم پر مشتمل تھیں اور اس سے متعلقہ کسی خاص بحث کو بیان کرتی تھیں ۔ان تمام علمی مباحث کو ایک تالیف میں جمع کرنے کا عظیم کارنامہ الشیخ محمد عبدالعظیم زرقانی نے اپنی کتاب ’’مناھل العرفان فی علوم القرآن‘‘ میں سرانجام دیا۔ دراصل انہیں دارالکتب مصریہ سے علی بن ابراہیم بن سعید الحوفی کا تیس جلدوں میں غیر مطبوعہ قلمی نسخہ ’’البرہان فی