کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 269
ہے، جیسے:
﴿یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ.﴾ (الرحمٰن: ۲۲)
حالانکہ نکلنے والا موتی صرف میٹھے سمندر سے نکلتا ہے نہ کہ کڑوے سے۔ زجاج وغیرہ کہتے ہیں : جب ایک سے نکل آیا تو گویا دونوں سے نکل آیا۔
کبھی ضمیر اپنی اصل نہیں بلکہ اس سے ملی ہوئی چیز کی طرف لوٹتی ہے، جیسے
﴿لَمْ یَلْبَثُوْآ اِِلَّا عَشِیَّۃً اَوْ ضُحٰہَا.﴾ (النازعات: ۴۶)
اس میں دن کے چاشت کا وقت مراد ہے نہ کہ شام کا چاشت؛ کیوں کہ شام کا چاشت ہوتا ہی نہیں ہے۔
کبھی ضمیر میں سب سے پہلے لفظ کا خیال رکھا جاتا ہے پھر معنی کا، جیسے:
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ﴾ (البقرہ: ۸)
میں یَقُوْلُ کی ضمیر مِنْ کے لحاظ واحد آئی پھر معنی کے اعتبار سے وَمَاہُمْ میں جملے کی ضمیر آ گئی۔
۲۔ معرفہ ونکرہ
نکرہ:
نکرہ چند ایک مقامات پر استعمال ہوتا ہے۔
٭ جب اکائی کا ذکر کرنا ہو، جیسے:
﴿وَ جَآئَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَۃِ یَسْعٰی﴾ (القصص: ۲۰)
یہاں ایک ہی آدمی مراد ہے۔
٭ جب نوع بیان کرنا مقصود ہو، جیسے:
﴿وَ لَتَجِدَنَّہُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَیٰوۃٍ﴾ (البقرہ: ۹۶)
یہاں حَیٰوۃٍ سے مراد زندگی کی نوع ہے اور آنے والے وقت میں اضافے کی طلب مراد ہے؛ کیوں کہ یہ حرص ماضی اور حاضر پر نہیں ہوتی۔
٭ ہر ایک نوع کو بیان کرنے کے بھی آتا ہے، جیسے: