کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 268
ہو؛ کیوں کہ اگر دوسرا بھی ظاہر ہوتا تو وہ پہلے ہی کی طرح ہوتا، گویا یہ کہا گیا ہے: ((وَلَا یُنْقَصُ مِنْ عُمُرِ مُعَمَّرٍ۔)) چناں چہ عُمِرُہ کی ضمیر کا اشارہ پہلے معمر کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف راجع ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ کہتے ہیں : ((عِنْدِیْ دِرْھَمٌ وَنِصْفُہ اَیْ نِصْفُ آخَرَ۔)) میرے پاس ڈیڑھ درہم ہے اس دوسرا آدھا پہلے درہم سے نہیں بلکہ کسی اور درہم سے ہوتا ہے۔ (چناں چہ ضمیر گزشتہ درہم کی طرف راجع نہیں ہوتی) بسا اوقات ضمیر صرف معنی کی طرف راجع ہوتی ہے: جیسے آیت ہے: ﴿یَسْتَفْتُوْنَکَ قُلِ اللّٰہُ یُفتِیْکُمْ فِی الْکَلٰلَۃِ اِنِ امْرُؤٌا ہَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَہٗٓ اُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ وَ اِنْ کَانُوْآ اِخْوَۃً رِّجَالًا وَّ نِسَآئً فَلِلذَّکَرِمِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنُ﴾ (النساء: ۱۷۶) میں کَانَتَا کی ضمیر سے پہلے کوئی تثنیہ کا لفظ نہیں ہے جس کی طرف ضمیر لوٹ سکے۔ چوں کہ لفظ کلالہ واحد، تثنیہ جمع سب پر بولا جاتا ہے، اسی لیے معنی کا خیال کرتے ہوئے ضمیر تثنیہ لائی گئی ہے۔ اسی طرح: ﴿وَ اٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِہِنّ نِحْلَۃً فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِّنْہُ نَفْسًا﴾ (النساء: ۴) میں مِنْہُ کی ضمیر صدقات کے معنی کی طرف لوٹ رہی ہے، کیوں کہ صدقات، صداق (حق مہر) کے معنی میں ہے، گویا اس طرح کہا گیا ہے وَ اٰتُوا النِّسَآئَ صَدَاقَہُنَّ اَوْ مَا اَصْدَقْتُمُوْہُنَّ۔ کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ ضمیر کو پہلے ذکر کر دیا جاتا ہے، پھر اس بارے اس انداز میں بتایا جاتا ہے جس سے اس کی وضاحت ہو جاتی ہے، مثلاً: ﴿اِنْ ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا﴾ (الانعام: ۲۹) (ایسے مواقع پر ضمیر مبتداء بن جاتی ہے۔) کبھی ضمیر کو تثنیہ لایا جاتا ہے اور وہ مذکورہ دو چیزوں میں سے ایک کی طرف راجع ہوتی