کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 266
ہوگی یا حسی اور علمی طور اس کا مدلول معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اسے ذکر کرنے ضرورت نہ رہی ہوگی یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے کسی جزء، کل یا نظیر کو کسی بھی طرح سے اس کے مصاحب بننے والے کے طور پر ذکر کیا گیا ہوگا۔ ان امور کی بناء پر وہ مرجع جس کی طرف ضمیر غائب لوٹ رہی ہوتی ہے اس کا ذکر لفظی طور پرضمیر سے پہلے ہونا ضروری ہے اور اکثر ایسے ہی ہوتا ہے جیسے آیت ﴿وَ نَادٰی نُوْحُ نِ ابْنَہٗ﴾ (ہود: ۴۲) میں ضمیر سے پہلے اس کا مرجع نُوحٌ موجود تھے۔ یا ضمیر غائب کا مرجع سابقہ کلام کے ضمن میں موجود ہو، مثلاً: ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ﴾ (المائدہ: ۸) یہاں ھُوَ ضمیر اِعْدِلُوْا کے لفظ میں پائے جانے والے مادہ عدل کی طرف لوٹ رہی ہے یعنی عدل تقوی کے زیادہ قریب ہے۔ یا ضمیر غائب کسی التزام پر دلالت کر رہی ہو، مثلاً: ﴿فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآئٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ﴾ (البقرہ: ۱۷۸) اس میں اِلَیْہِ کی ضمیر معاف کرنے والے کی طرف لوٹ رہی ہے جو لفظ عُفِی کو مستلزم ہے۔ (یعنی معاف تبھی کیا جا سکتا ہے جب معاف کرنے والا ہوگا) کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ مرجع لفظوں میں مؤخر ہوتا ہے، رتبے میں نہیں ، جیسے: ﴿فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی.﴾ (طٰہٰ: ۶۷) اس میں نَفْسِہٖ کی ضمیر کا مرجع مُوْسٰی لفظا بعد میں ہے۔ کبھی مرجع لفظاً اور رتبۃً بعد میں ہوتا ہے، جیسے: ضمیر شان، ضمیر قصہ یا نعم اور بئس کی ضمائر کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان مثالیں یہ آیات ہیں : ﴿قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ.﴾ (الاخلاص: ۱) (ضمیر شان)