کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 265
بھی لکھی ہے۔
ضمیر کو اختصار کے لیے وضع کیا گیا ہے جس کی بدولت بہت سارے الفاظ بیان کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور ضمیرمعنی کی سلامتی اور عدم تکرار کے ساتھ اس کے قائم مقام بن جاتی ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ کے فرمان:
﴿اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا.﴾ (الاحزاب: ۳۵)
میں ضمیر ھُمْ بیس کلمات کے قائم مقام آئی ہے۔ اگر انہیں ظاہری طور پر ادا کرنا ہوتا وہ بیس کلمات یہ تھے:
﴿اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا.﴾ (الاحزاب: ۳۵)
غائب کی ضمیر کے لیے کسی مفسر کا مقدم ہونا ضروری ہے۔ علماء نحو اس اصول کی بناء پر کہتے ہیں کہ متکلم اور مخاطب ضمیر کی تفسیر تو مشاہدہ ہی کر دیتا ہے جب کہ غائب کی ضمیر اس تفسیر سے خالی ہے لہٰذا اس کے لیے ایک مقدم کا ہونا ضروری ہے جس کی طرف یہ لوٹ سکے تاکہ ضمیر آنے سے اس کی مراد کا علم ہو جائے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ ضمیر کو کسی ایسے اسم کی طرف لوٹانا منع ہے جو لفظاً اور رتبۃً ضمیر کے بعد ذکر کیا گیا ہو۔ اس قاعدے سے صرف ان مسائل کا استثناء کیا گیا ہے جن میں ضمیر ایسے اسم کی طرف لوٹ رہی ہوتی ہو جس کے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس کی وجہ ایسے قرائن ہوتے ہیں جو لفظ میں موجود ہوتے ہیں یا پھر حالات مخاطب کے بارے خبر دے رہے ہوتے ہیں ۔
ابن مالک ’’التسھیل‘‘ میں رقم طراز ہیں :
اصول یہی ہے کہ ضمیر غائب سے پہلے ایک ایسا مفسر موجود جو اس بارے وضاحت کر رہا ہو اور وہ مفسر بغیر دلیل قریبی اسم کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ اس کی وضاحت یا تو الفاظ میں کی گئی