کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 264
دوسري قسم: اس میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک جائز نہیں ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((بَلِّغُوْا عَنِّی وَلَوْ آیَۃً۔))
بعض کے نزدیک جائز ہے اور کتابت یا قرآن حفظ کرانے کے لیے اجرت طے کر لینا افضل ہے۔ چناں چہ اگر کوئی شخص قرآن کی تعلیم دینے کے لیے اجرت طے کر لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ مسلمانوں میں یہ کام چلتا آرہا ہے اورلوگوں کو اس کی ضرورت بھی ہے۔
تیسري قسم: تمام کے نزدیک یہ جائز ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کے لیے معلم تھے اور آپ تحفہ قبول کر لیا کرتے تھے، اسی طرح جس آدمی کو کسی موذی چیز نے ڈس لیا تھا تو صحابہ نے طے کر کے اسے سورت فاتحہ سے دم کیا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’اپنے ساتھ میرا بھی حصہ نکالو۔‘‘ (رواہ البخاری)
مفسر کے لیے ضروری قواعد:
کسی بھی علم کو حاصل کرنے کے لیے اس کے عام بنیادی قواعد اور خاص امتیازی اوصاف کی پہچان ضروری ہے تاکہ طالب علم کو علمی بصیرت حاصل ہو۔ انسان جس طرح علمی آلات کو حاصل کرتا ہے، اسی طرح وہ ان چیزوں کو بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے لیے ممدو معاون ہوتی ہیں تاکہ وہ علم کے محلات میں چابیاں لے کر دروازوں سے اندر داخل ہو۔ قرآن چوں کہ واضح عربی زبان میں نازل ہوا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْئٰ نًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ.﴾ (یوسف: ۲)
اس لیے قرآن کو سمجھنے کے لیے مفسر کو جن قواعد کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا تعلق بھی عربی قواعد، اس کی بنیادوں کی سمجھ، اس کے اسلوب کے ذوق اور اس کے اسرار کے ادراک سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی مباحث عربی زبان کی فروع اور علوم میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ یہاں ہم چند ایک کو اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں :
۱۔ ضمائر:
علماء نے قرآن کریم، حدیث نبوی، اور عرب لوگوں کے نظم ونثر سے ضمائر کے لغوی قواعد نکالے ہیں ۔ امام ابوبکر محمد بن قاسم الانباری نے قرآن کریم میں واقع ضمائر پر دو جلدوں کی کتاب