کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 263
تعلیم قرآن پر اجرت لینا:
قرآن کی تعلیم دینا فرضِ کفایہ اور اسے یاد کرنا امت کے اتنے لوگوں پر فرض ہے جن کی وجہ سے تواتر کا عدد ختم نہ ہو اور کسی قسم کی تبدیلی یا تحریف کو راہ نہ مل سکے۔ اگر کچھ لوگ یہ کام سرانجام دے لیں تو باقی لوگوں سے یہ حکم ساقط ہو جاتا ہے اگر کوئی بھی یہ کام نہ کرے تو سبھی گناہگار ہوتے ہیں ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:
((خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہُ۔)) (رواہ البخاری)
’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور (دوسروں کو) سکھائے۔‘‘
قرآن کو یاد کرنے کا معروف طریقہ یہی ہے کہ اس کی تھوڑی تھوڑی آیات کو تسلسل کے ساتھ یاد کیا جائے، جدید دور کے تربیتی وسائل میں بھی یہی طریقہ رائج ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پڑھنے والا پہلے تھوڑا تھوڑا یاد کرے، پھر اگلا حصہ یاد کرے تو پچھلے کو بھی ساتھ ملالے۔ ابوالعالیہ کہتے ہیں : قرآن کو پانچ پانچ آیات کر کے یاد کرو کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی جبریل سے پانچ پانچ آیات لیا کرتے تھے۔
تعلیمِ قرآن پر اجرت لینے کے بارے اہلِ علم کا اختلاف ہے اور محققین نے جواز والے معاملے کو راجح کہا ہے؛ کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جن چیزوں پر تم مزدوری لیتے ہو اس کی سب سے زیادہ حقدار اللہ کی کتاب ہے۔‘‘ (رواہ البخاری فی کتاب الطب من حدیث ابن عباس)
اسی طرح آپ نے ایک صحابی سے فرمایا تھا: میں نے جو تمہارے پاس قرآن ہے اس کے عوض اس عورت سے تمہارا نکاح کر دیا ہے۔
(رواہ الشیخان فی باب النکاح)
بعض علماء نے مختلف حالات کی مطابقت سے اس کی بڑی عمدہ تقسیم کی ہے اور ہر حالت کا حکم بھی بیان کیا ہے۔ ابو لیث اپنی کتاب ’’بستان العارفین‘‘ میں لکھتے ہیں :
تعلیم تین طرح کی ہوتی ہے۔ ایک صرف ثواب کی خاطر، اس پر اجرت نہ لی جائے۔ دوسری اجرت لے کر تعلیم دینا اور تیسری یہ کہ بغیر شرط لگائے تعلیم دے پھر اس کو کوئی تحفہ دیا جائے تو قبول کرلے۔
پہلی قسم: اس پر اجر ملتا ہے اور یہ انبیاء علیہم السلام کا مشن تھا۔