کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 262
۱۰۔ جہاں بلند آواز سے قرآن پڑھنا بہتر ہو وہاں بلند آواز سے پڑھا جائے کیوں کہ اس سے دلوں میں بیداری اور جسم میں نشاط پیدا ہونے کا سامان ہے، اسی طرح سماعت اسے سننے اور سامعین اس سے نفع لینے کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔ نیز تمام حواس اسے دیکھنے، سمجھنے اور غوروتدبر کرنے کے لیے جمع ہو جاتے ہیں لیکن اگر ریاء کاری کا ڈر ہو یا اس سے لوگوں خصوصاً نماز پڑھنے والوں کو تکلیف ہوتی ہو تو آہستہ پڑھنا افضل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جس طرح بآواز بلند اور خوبصورت آواز میں قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی اجازت دی ہے کسی اور چیز کے لیے نہیں دی۔ (اخرجہ البخاری ومسلم)
قرآن کریم کو دیکھ کر تلاوت کرنا افضل ہے یا زبانی پڑھنا، اس بارے اہلِ علم کے تین اقوال ہیں :
پہلا قول: مصحف سے دیکھ کر قراء ت کرنا افضل ہے کیوں کہ قرآن کو دیکھنا بھی عبادت ہے، اس طرح پڑھنا اور دیکھنا دو عبادتیں جمع ہو جاتی ہیں ۔
دوسرا قول: زبانی قراء ت کرنا زیادہ افضل ہے کیوں کہ اس طرح زیادہ غور وفکر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ مؤقف العز بن عبدالسلام کا ہے وہ کہتے ہیں : ’’کہا جاتا ہے کہ دیکھ کر قراء ت کرنا افضل ہے کیوں کہ اس میں دو اعضاء یعنی زبان اور آنکھ کا عمل ہوتا ہے اور جس قدر مشقت پیش آئے اسی قدر ثواب ملتا ہے لیکن یہ قول باطل ہے کیوں کہ قرآن پڑھنے کا مقصد غوروفکر کرنا ہے؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لِّیَدَّبَّرُوْا اٰیٰتِہٖ﴾ (ص: ۲۹)
’’تاکہ اس کی آیات میں غوروفکر کریں ۔‘‘
جب کہ انسانی عادت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دیکھ کر تلاوت کرنا اس مقصد میں مخل ہوتا ہے لہٰذا یہ قول مرجوح ہوگا۔‘‘
تیسرا قول: حالات کے پیشِ نظر معاملہ مختلف ہوتا ہے اگر پڑھنے والا دیکھ کر پڑھنے کی نسبت زبانی پڑھنے سے غوروفکر زیادہ کر سکتا ہو تو زبانی پڑھنا افضل ہے اگر دونوں طرح سے برابر کا تدبر اور فہم حاصل ہوتا ہو تو مصحف سے دیکھ کر پڑھنا افضل ہے۔