کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 261
مطلوب ہے یعنی اپنے دل کو قراء ت کے معانی میں غوروفکر کرنے میں مشغول کرے اور ہر آیت کے ساتھ شعور اور جذبات کو دعا، استغفار، رحمت اور عذاب کے ساتھ وابستہ رکھے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُوْنَ وَ یَزِیْدُہُمْ خُشُوْعًا.﴾ (الاسراء: ۱۰۹) ’’وہ منہ کے بل گرتے ہیں روتے ہیں اور ان کی عاجزی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‘‘ اسی طرح سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔‘‘ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں آپ کو سناؤں حالانکہ آپ پر نازل ہوتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ہاں میں کسی دوسرے سے سننا چاہتا ہوں ۔‘‘ چناں چہ میں نے سورت النساء کی تلاوت شروع کی، جب میں آیت: ﴿فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآئِ شَہِیْدًا.﴾ (النساء: ۴۱) پر پہنچا تو آپ نے فرمایا: ’’بس کرو‘‘ میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ (اخرجہ البخاری وَغَیْرُہُ) امام نووی ’’شرح المہذب‘‘ میں کہتے ہیں : آنکھوں میں آنسو لانے کا طریقہ یہ ہے کہ پڑھنے والا سخت وعید، ڈراوے اور وعدہ ومیثاق والی آیات پر خوب غور کرے، پھر ان معاملات میں اپنی کمزوریاں دیکھے، اگر یہ سب کرنے کے باوجود اس کا دل نہ دہلے اور رونا نہ آئے تو ایسا نہ ہونے پررو دے کیوں کہ یہ بہت بڑی مصیبت ہے۔ امام ابن ماجہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آخر وقت میں یا اس امت کے آخر میں کچھ لوگ نمودار ہوں گے، وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلقوں سے آگے نہیں پڑھے گا، جب تم انہیں دیکھو یا ان سے ملو تو انہیں قتل کرنا۔‘‘ ۹۔ قراء ت خوبصورت آواز میں کی جائے کیوں کہ قرآن کریم آواز کی زینت ہے اور اچھی آواز دل میں گھر کر جاتی ہے حدیث میں ہے ’’قرآن کو اپنی خوبصورت آواز میں پڑھو۔ (رواہ ابن حبان وغیرہ)