کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 26
علقمہ بن قیس، مسروق، اسود بن یزید، عامر الشعبی، حسن بصری اور قتادہ بن دعامہ سدوسی رحمہم اللہ ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : تفسیرِ قرآن کے سب سے بڑے علماء اہل مکہ ہیں ، کیوں کہ وہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد ہیں ، جیسے: مجاہد، عطاء بن ابی رباح، عکرمہ مولیٰ ابن عباس اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے دیگر تلامذہ ، جیسے طاؤس، ابو الشعثاء اور سعید بن جبیر رحمہم اللہ وغیرہ۔ اسی طرح کوفہ والوں میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد قرآن کی تفسیر کو اچھے انداز میں جاننے کی وجہ سے دوسروں سے ممتاز ہوئے۔ اہلِ مدینہ میں تفسیر کے عالم زید بن اسلم رحمہ اللہ سے امام مالک رحمہ اللہ نے تفسیر کا علم حاصل کیا، نیز ان سے ان کے بیٹے عبدالرحمان اور عبداللہ بن وھب نے بھی علم تفسیر حاصل کیا۔[1] ان تمام علماء تفسیر سے جو کچھ روایت کیا جاتا ہے اسے علمِ تفسیر، علمِ غریب القرآن، علمِ اسباب النزول، مکی اور مدنی آیات کا علم اور علمِ ناسخ و منسوخ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان تمام علوم کو زبانی نقل کیا جاتا تھا اور اسی پر اعتماد ہوتا تھا۔ تدوین کا دور دوسری صدی میں آیا، مختلف ابواب کے ساتھ حدیث کی تدوین شروع ہوئی تو اس میں کچھ تفسیری مواد بھی شامل تھا، جب کہ بعض علماء نے قرآن کریم کی تفسیر کے لیے ان روایات کو جمع کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین یا تابعینِ عظام رحمہم اللہ سے منقول تھیں ۔ یزید بن ہارون السلمی (المتوفی ۱۱۷ہجری)، شعبہ بن حجاج (المتوفی ۱۶۰ ہجری)، وکیع بن جراح (المتوفی ۱۹۷ ہجری)، سفیان بن عیینہ (المتوفی ۱۹۸ ہجری)، عبدالرزاق بن ہمام (المتوفی ۲۱۱ ہجری)۔ یہ سبھی علماءِ ائمہ حدیث تھے ، انہوں نے تفسیر کو حدیث کے ایک باب کی حیثیت سے جمع کیا تھا، اسی لیے ہمیں ان کی مستقل تفاسیر کتابی صورت میں نہیں مل سکیں ۔ پھر کچھ علماء نے انہی کے منہج اور طریق کار کو اختیار کرتے ہوئے قرآنی آیات کی ترتیب کے مطابق کامل تفسیر لکھی، ان میں ابنِ جریر طبری (المتوفی ۳۱۰ ہجری )بہت مشہور ہوئے۔
[1] مقدمہ ابن تیمیہ فی اصول التفسیر، ص: ۱۵