کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 259
والوں کے لیے سفارش کرے گا۔‘‘ (رواہ مسلم) ہمارے اسلاف (صحابہ کرام) تلاوت قرآن کا بہت اہتمام کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ ایک دن اور ایک رات اور کچھ اس سے زیادہ دونوں میں قرآن مکمل کر لیا کرتے تھے۔ چناں چہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’ایک ماہ میں قرآن پڑھا کرو۔‘‘ میں نے عرض کی: مجھ میں اس سے زیادہ قوت ہے، آپ نے فرمایا: ’’دس دنوں میں پڑھا کرو۔‘‘ میں نے کہا: مجھ میں اس سے بھی زیادہ ہمت ہے تو آپ نے فرمایا: ’’پھر سات دن میں پڑھ لیا کرو اس سے کم میں نہیں ۔‘‘ (رواہ البخاری ومسلم) قرآن کو بھلا دینے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’قرآن کریم کی خبر گیری کرتے رہا کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! یہ رسیوں میں بندھے اونٹ سے بھی جلدی (سینوں سے) بھاگ جاتا ہے۔ (رواہ البخاری ومسلم) کثرتِ تلاوت اور ختمِ قرآن کا معاملہ لوگوں کی ذمہ داریوں اور استطاعت کے مطابق مختلف ہوتا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ ’’الاذکار‘‘ میں لکھتے ہیں : درست بات یہی ہے کہ یہ معاملہ لوگوں کے لحاظ سے مختلف نوعیت کا حامل ہوتا ہے، چناں چہ جو شخص زیادہ غوروفکر کی وجہ سے قرآن کے لطائف ومعارف تک رسائی حاصل کرتا ہے تو اسے اتنا غوروفکر ضرور کرنا چاہیے جس کی وجہ سے وہ تلاوت کی ہوئی آیات کا مفہوم سمجھ سکے اور اسی طرح جو شخص تعلیم دینے ، حکومتی داریوں ، یا دینی اور رفاہی کاموں میں مصروف ہو وہ اتنا غوروفکر ضرور کرے جس سے ذمہ داری پورے کرنے میں کوئی خلل واقع ہو اور نہ ہی قرآن کے کمال سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اگر اس کا تعلق مذکورہ لوگوں سے نہیں ہے تو جب تک وہ اکتاتا نہیں ہے قرآن کی تلاوت کرتا رہے۔ آداب تلاوت: ۱۔ تلاوتِ قرآن کے لیے باوضو ہونا چاہیے؛ کیوں کہ یہ بہترین ذکرہے، اگرچہ بے وضو آدمی کی تلاوت بھی جائز ہے۔ ۲۔ قراء ت کی عظمت کا خیال کرتے ہوئے صاف ستھری جگہ بیٹھ کر تلاوت کی جائے۔ ۳۔ خشوع وخضوع، اطمینان اور باوقار طریقے سے تلاوت کی جائے۔