کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 257
اچھی قراء ت کرنے والے کے منہ سے الفاظ سن کر بار بار دہرانے کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ اس کے قواعد کی بنیاد وقف، امالہ، ادغام، ہمزہ کے احکام، ترقیق، تفخیم اور مخارج حروف کی کیفیت پر ہے۔
بغیر تجوید قرآن پڑھنے کو علماء ’’لحن‘‘ شمار کرتے ہیں ۔
لحن: الفاظ پر طاری ہونے والے خلل کو ’’لحن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں :
(۱) لحنِ جلی (۲) لحنِ خفی
لحنِ جلي: لفظ میں ایسا ظاہری خلل واقع ہو جانا جسے قاری اور غیر قاری سب پہچان سکتے ہوں مثلاً اِعرابی یا صرفی غلطی۔
لحنِ خفي: الفاظ میں مخفی خلل واقع ہونا، جسے صرف علماء اور ادائیگی کے ماہر ایسے ائمہ ہی جانتے ہیں جنہوں اہلِ علم کی زبان سے ادائیگی سیکھی اور ان کے حروف کو ضبط کیا ہو۔
تجوید میں افراط وتکلف کی حد تک مبالغہ کرنا بھی لحن سے کم نہیں ہے؛ کیوں کہ اس کی وجہ سے حروف اپنی جگہ برقرار نہیں ہے رہتے، جیسا کہ آج لوگ قرآن نغموں کی صورت میں پڑھتے ہیں جس کی وجہ سے آواز میں اس طرح اتار چڑھاؤ واقع ہوتا جس طرح طبلے، سارنگی اور آلاتِ موسیقی سے اتار چڑھاؤ پیدا ہوتا ہے۔
علماء نے لوگوں کو اس بدعت پر تنبیہ فرمائی ہے اور اسے ترعید، ترقیص، تطریب، تحزین اور تردید کا نام دیا ہے۔ امام سیوطی نے اس بات کو ’’الاتقان‘‘ میں نقل کیا ہے اور رافعی نے ’’اعجاز القرآن‘‘ میں اس عبارت کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:
’’قرآن کریم کی قراء ت اور الفاظ کی ادائیگی میں جو تلحین لوگوں نے شروع کی اور آج تک اسے ایسے لوگ نقل کرتے چلے آرہے ہیں جو فتنے میں مبتلا ہیں یا وہ لوگ ہیں جو ان سے خوش ہوتے ہیں ۔ وہ قرآن کو گانے طرز پر پڑھتے ہیں ۔ جن میں گانے کی ایک قسم ’’ترعید‘‘ ہے، جس میں قاری اپنی آواز میں کپکپی پیدا کرتا ہے گویا سردی یا تکلیف کی وجہ سے کپکپا رہا ہو، اسی طرح ’’ترقیص‘‘ ہے جس میں قاری ساکن حرف پر خاموشی کا ارادہ کرتا ہے لیکن پھر حرکت کی آواز نکالتا ہے گویا دوڑنے یا بھاگنے میں مصروف ہو۔ اور ’’تطریب‘‘ یہ ہے کہ قرآن کو سر لگا کر پڑھنا اس میں