کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 256
مبحث: 12
تجوید اور آدابِ تلاوت
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک بلند آواز اور قرآن کی عمدہ تلاوت کرنے والے قاری تھے۔ اچھی تلاوت کا پڑھنے اور سننے والے پر قرآن کے معانی سمجھنے، اس کے اعجاز کے راز حاصل کرنے اور خشوع وخضوع پر پیدا کرنے میں ایک اثر ہوگا۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: جو شخص قرآن کو اسی شگفتگی پر پڑھنا چاہے جس پر نازل ہوا ہے تو وہ ابن امِ عبد (عبداللہ بن مسعود) کی طرح پڑھے۔‘‘ اور یہ اس وجہ سے تھا کہ انہیں اچھی آواز اور خوبصورت انداز میں قرآن پڑھنے کا ملکہ عطا کیا گیا تھا۔
قدیم اور جدید علماء صحیح ادائیگی کے لیے تلاوت قرآن پر بہت توجہ دیا کرتے تھے اور ان کے ہاں اس علم کو ’’تجوید القرآن‘‘ کہا جاتا ہے۔ علماء کی ایک جماعت نے صرف اسی ایک علم پر نظم و نثر اور تالیفات کی ہیں ۔ وہ تجوید کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں :
((اِعْطَائُ الحُرُوْفِ حُقُوْقَھَا وَتَرْتِیْبَھا، وَرَدُّ الحُرُفِ اِلیٰ مَخْرَجِہٖ وَاَصْلِہٖ، وَتَلْطِیْفِ النُطْقِ بِہٖ عَلٰی کَمَالِ ھَیْئَتِہٖ مِنْ غَیْرِ اِسْرَافٍ وَلَا تَعَسُّفٍ وَلَا اِفْرَاطٍ وَلَا تَکَلُّفٍ۔))
کسی بھی قسم کی بیشی، تکلف، زیادتی اور بناوٹ کے بغیر حروف کو ان کا حق اور ترتیب دینا، حروف کو ان کے اصل مخارج سے نکالنا نیر نزم اور بہترین انداز میں ان کو ادا کرنا۔
تجوید اگرچہ ایک علمی فن ہے جس میں ہر حرف کے ماقبل اور ما بعد کے ساتھ اس کے تعلق کا خیال رکھتے ہوئے حروف کو ان کے مخارج سے ادا کرنے کے لیے قواعد وضع کیے گئے ہیں لیکن یہ علم صرف پڑھنے کے ساتھ اس قدر نہیں آتا جتنا مشق کرنے اور اور اچھی قراء ت کرنے والے کی بار بار قراء ت سننے سے آتا ہے۔
ابن الجزری کہتے ہیں : میرے علم میں تجوید کو سیکھنے کے لیے زبان کی ریاضت (مشق) اور