کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 253
عوجاً، قیماً کی صفت ہے؛ کیوں جو عِوَج ٹیڑھا ہے وہ قَیِّمٌ سیدھا ہو ہی نہیں سکتا۔ (یہ دونوں متضاد ہیں )
٭ جس کے آخر میں ھا ساکن ہو۔ مثلاً:
﴿وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتَابَہٗ بِشِمَالِہٖ فَیَقُوْلُ یَالَیْتَنِی لَمْ اُوْتَ کِتَابِیَہْ. وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَہْ. یَالَیْتَہَا کَانَتِ الْقَاضِیَۃَ. مَا اَغْنٰی عَنِّیْ مَالِیَہ.﴾
(الحاقۃ: ۲۵۔۲۸)
چناں چہ قرآن کے علاوہ دیگر عبارات میں آپ وقف کی صورت میں ہا کو ثابت رکھتے ہیں ، جب کہ وصل کی حالت میں حذف کر دیتے ہیں ۔ مصحف میں اسے ہا کے ساتھ لکھا گیا ہے لیکن یہاں وصل نہیں کیا جائے گا؟ کیوں کہ عربی قواعد کے مطابق وصل کی صورت میں ھا کو گرا دیا جائے گا۔ چناں چہ اگر آپ اس کے ساتھ وصل کریں گے تو یہ عربی قواعد کی خلاف ورزی ہوگی اور حذف کریں گے تو مصحف کی خلاف ورزی ہوگی لیکن اگر یہاں وقف کریں گے تو مصحف اور عربی قواعد دونوں کی موافقت ہو جائے گی۔ ھا کے ساتھ وصل کا جواز صرف وقف کی نیت سے ہو سکتا ہے۔
٭ آیت ﴿وَ لَا یَحْزُنْکَ قَوْلُہُمْ﴾ (یونس: ۶۵) یہاں وقف کرنا ضروری ہے اس کے بعد اگلا جملہ پڑھا جائے ﴿اِنّ الْعِزَّۃ لِلّٰہِ جَمِیْعاً﴾ تاکہ معنی سیدھا رہے؛ کیوں کہ اگر اسے ملا دیا جائے اور وقف نہ کیا جائے تو یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ جو بات آپ کو غمزدہ کرتی ہے وہ ان کا قول ﴿اِنَّ الْعِزَّۃُ لِلّٰہِ جَمِیْعًا﴾ ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے معانی کو سمجھنے اور احکام میں تدبر کے لیے وقف اور ابتداء کے بہت فوائد ہیں ، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ہم نے اپنی زندگی کا ایک حصہ گزار دیا ہے، ہم قرآن سے پہلے ایمان لائے تھے جب کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کو ایمان سے پہلے قرآن دیا جاتا ہے، پھر وہ فاتحہ سے لے کر آخر تک پڑھ لیتا ہے لیکن اسے یہ علم نہیں ہوتا کہ اللہ نے اسے کیا حکم دیا ہے اور کس چیز سے ڈانٹا ہے اور نہ ہی اسے وقف کرنے کا علم ہوتا ہے حالانکہ ایک ایک لفظ اسے پکار رہا ہوتا ہے کہ میں تمہاری طرف اللہ کا قاصد ہوں تاکہ تم مجھ پر عمل کرو اور میری نصیحتوں کو وعظ سمجھو۔‘‘ (انظر ھامش البرہان: ۱/۳۴۲)