کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 25
’’مصحف الامام‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس کے نسخے مختلف شہروں میں بھیجے گئے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے اس کی کتابت کو ’’رسمِ عثمانی‘‘ کا نام دیا گیا، اس کام کو ’’رسمِ قرآن‘‘ کے علم کی ابتداء تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کے بعدسیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں آپ کے حکم پر ابوالاسود دؤلی نے بول چال میں غلطیوں سے محفوظ رہنے اور قرآن کریم کو اچھی طرح ضبط کرنے کی غرض سے نحو کے قواعد وضع کیے ، اس کام کو ’’اعرابِ قرآن‘‘ کے علم سے تعبیر کیا جاتاہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اپنی اپنی فہم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی رفاقت کے مطابق قرآن کے معانی اور تفسیر ایک دوسرے تک نقل کرتے رہے ، لیکن فہم وفراست اور رفاقت میں یکساں نہ ہونے کی وجہ سے تفسیر قرآن میں تفاوت تھا، بہر حال پھر ان سے ان کے تابعین شاگردوں نے نقل کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں مشہور مفسرین خلفائے اربعہ کے علاوہ عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس، ابی بن کعب، زید بن ثابت، ابوموسیٰ اشعری اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم ہیں ۔ جب کہ ان میں زیادہ تر تفسیری روایات عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن مسعود اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے منقول ہیں ، لیکن ان کی مرویات بھی قرآن کریم کی کامل تفسیر نہیں ، بلکہ ان میں بعض آیات کے معانی بیان ہوئے ہیں جن میں دقیق کلمات کی تفسیر اور اجمال کی وضاحت ہوتی ہے۔ تابعین کی ایک جماعت کو تفسیر میں خوب شہرت نصیب ہوئی، انہوں نے صحابہ سے علم حاصل کیا تھا اور بعض آیات کی تفسیر میں خوب محنت کی۔ مکہ مکرمہ میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے جن شاگردوں نے شہرت حاصل کی ان کے نام یہ ہیں : سعید بن جبیر، مجاہد، عکرمہ مولیٰ ابن عباس، طاؤس بن کیسان الیمانی اور عطاء بن ابی رباح رحمہم اللہ ۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے شاگرد جو مدینہ منورہ میں مشہور ہوئے، ان میں زید بن اسلم، ابوالعالیہ اور محمد بن کعب القرظی رحمہم اللہ معروف ہیں ۔ اسی طرح عراق میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے جن شاگردوں کو شہرت ملی وہ یہ ہیں :