کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 249
جب وہ (قراء ت تابعین) مستحسن ہے تو کبار صحابہ سے مروی تفسیر کیوں نہیں ؟ جب تفسیر قراء ت میں ہی موجود ہو تو یہ دیگر تفاسیر سے زیادہ بہتر اور قوی ہے ان قراء ت سے کم ازکم صحیح تفسیر معلوم ہو جاتی ہے۔
جن سات مشہور قراء کا ذکر ابوبکر بن مجاہد نے بطور خاص کیا ہے وہ ان کی امانت وثقاہت یا ضبط اور ساری زندگی قراء ت کے لزوم کی وجہ سے ہے اور یہ اس لیے کیا ہے کہ ان سے روایت کے بارے اتفاق رائے ہے، وہ سات قراء یہ ہیں :
۱۔ شیخ الرواۃ ابوعمر و بن العلاء:
یہ زیان بن العلاء بن عمار الماز نی البصری ہیں ، ان کا نام یحییٰ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یحییٰ ہی ان کی کنیت تھی ان کی وفات ۱۵۴ ہجری میں ہوئی، ان سے روایت کرنے والے الدوری اور السوسی ہیں : الدوری ابو عمر حفص بن عمر بن عبدالعزیز الدوری النحوی ہیں ، الدور بغداد کے ایک مقام کا نام ہے۔ یہ ۲۴۶ ہجری میں فوت ہوئے۔
جب کہ السوسی، ابو شعیب صالح بن زیاد بن عبداللہ السوسی ہیں ، جو ۲۶۱ ہجری میں فوت ہوئے تھے۔
۲۔ ابن کثیر:
ان کا نام عبداللہ بن کثیر المکی ہے، تابعین سے تعلق تھا، ۱۲۰ ہجری میں مکہ میں فوت ہوئے۔ ان سے روایت کرنے والے بزی اور قنبل ہیں ۔
البزی: احمد بن محمد بن عبداللہ بن ابی بزہ الموذن المکی ہیں ، کنیت ابوالحسن تھی، ۲۵۰ ہجری کو مکہ میں فوت ہوئے۔
قنبل: ان کا نام محمد بن عبدالرحمان بن محمد بن خالد بن سعی المکی المخزومی، کنیت ابوعمرو اور لقب قنبل تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ مکہ کے معروف خاندان قنابلہ سے تعلق رکھتے تھے، ۲۹۱ ہجری میں مکہ میں فوت ہوئے۔
۳۔ نافع المدنی:
یہ ابو رویم نافع بن عبدالرحمن بن ابونعیم اللیثی ہیں ، اصل وطن اصفہان تھا، ۱۶۹ ہجری میں