کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 248
اور اگر ارجلکم کو مجرور پڑھیں تو اس میں موزوں پر مسح کرنے کے حکم کا بیان ہوگا، جب اس کی ضرورت پیش آئے۔ اس صورت میں اس کا عطف مسح کے فعل کے معمول یعنی بُرؤوسِکُمْ پر ہوگا، چناں چہ یہاں اختصار کے ساتھ دو حکموں کا فائدہ حاصل ہوگیا جس سے قرآن کے اختصار میں معانی کا اعجاز ہے۔
جس قراء ت میں اجمال کا احتمال ہو، اسے دوسری قراء ت بیان کر دیتی ہے۔ جیسے
﴿وَ لَا تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ فَاِذَا تَطَہَّرْنَ ﴾ (البقرہ: ۲۲۲)
میں یَطْہُرْنَ کو مشدد اور مخفف دونوں طریقوں سے پڑھا گیا ہے، اس طرح مشہور قراء ت مخفف قراء ت کی وضاحت کرنے والی ہے، جیسا کہ جمہور کے نزدیک حائضہ عورت سے صرف اتقطاعِ دم کی وجہ سے وطی حلال نہیں ہوگی جب تک وہ غسل نہ کرلے۔ اسی طرح فَاسْعَوا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ کی دوسری قراء ت فَامْضُوا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ سے وضاحت ہو رہی کہ اس سے دوڑ کر جانا نہیں بلکہ چل کر جانا مراد ہے۔ اسی طرح آیت:
﴿وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَہُمَا﴾ (المائدہ: ۵)
کی جگہ فَاقْطَعُوْٓا أَیْمَانَھُمَا نے وضاحت کی ہے کہ کون سا ہاتھ کاٹا جائے گا اور سورت النساء کی آیت نمبر ۱۲:
﴿وَّ لَہٗٓ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ﴾ (النساء: ۱۲)
کی دوسری قراء ت میں ہے۔ وَّ لَہٗٓ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ من اُمٍّ جس سے وضاحت ہو رہی ہے یہاں وہ بہن بھائی مراد ہیں جو ماں کی طرف سے ہوں ۔ اسی لیے علماء کہتے ہیں کہ قراء ات کے اختلاف سے احکام کا اختلاف ظاہر ہوتا ہے۔ ابوعبیدہ ’’فضائل القرآن‘‘ میں کہتے ہیں شاذ قراء ت، مشہور قراء ت کی تفسیر ہوتی ہے جس سے اس کے معانی کی وضاحت ہو جاتی ہے، جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حفصہ رضی اللہ عنہا کی قراء ت ہے۔ وَالصَّلوٰۃ الوُسْطٰی الصَّلَاۃ العَصْرِ۔ ابن مسعود نے فاقطعو ایمانھما پڑھا ہے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فان اللّٰه مِنْ بعد اکراھھن غفور رحیم پڑھتے ہیں ، بعض بَعْدِ سے پہلے مِنْ نہیں پڑھتے۔ کہتے ہیں یہ اور ان سے ملتی جلتی دیگر قراء ت قرآن کی تفسیر کرتی ہیں ۔ ایسی ہی تفسیر تابعین سے بھی مروی ہے۔