کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 247
﴿لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ﴾ (البقرہ: ۱۹۸) (اخرجہا البخاری)
اس میں فِی مَوَاسِمِ الْحَجِّ کے الفاظ مدرج ہیں ۔
آخری چار اقسام کی قراء ت نہیں کی جا سکتی۔
جمہور علماء کہتے ہیں کہ ساتوں قراء ات متواترہ ہیں اور متواتر کے علاوہ مشہور قراء ت کی نماز میں تلاوت نہیں کی جا سکتی۔ امام نووی رحمہ اللہ ’’شرح المھذب‘‘ میں کہتے ہیں : شاذ قراء ت کو نماز میں تلاوت کرنا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ وہ قرآن نہیں ہے اس لیے کہ قرآن تواتر سے ثابت ہے اور شاذ قراء ت متواتر نہیں ہوتی اور جو شخص اس بات کی مخالفت کرتا ہے وہ غلط اور جاہل ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص شاذ قراء ت کے نماز پڑھتا ہے تو وہ درست نہیں ہوگی۔ نیز بغداد کے فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شاذ قراء ت کرنے والے سے توبہ کروائی جائے، اسی طرح ابن عبداللہ نے اس بات پر مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ شاذ قراء ت کرنا جائز نہیں ہے اور جو امام یہ قراء ت کرتا ہو اس کے پیچھے کوئی نماز نہ پڑھے۔
قراء اتِ صحیحہ میں اختلاف کے فوائد:
صحیح قراء ات کے اختلاف کے درج ذیل فوائد ہیں :
۱۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بہت زیادہ قراء ات کے باوجود کتاب اللہ تبدیلی اور تحریف سے محفوظ ہے۔
۲۔ امت پر تخفیف اور پڑھنے کی آسانی۔
۳۔ اختصار کی وجہ سے قرآن کریم کا اعجاز ثابت ہونا، یعنی ہر قراء ت الفاظ کے تکرار کے بغیر کسی حکم شرعی پر دلالت کرتی ہے، جیسے آیت:
﴿وَ امْسَحُوْا بِرُؤُسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ ﴾ (المائدہ: ۶)
ہے۔ اس میں اَرْجُلکُمْ کو زبر اور زیر دونوں طرح پڑھنا۔ منصوب پڑھا جائے تو اس میں پاؤں دھونے کا حکم ہوگا؟ کیوں کہ اس کا عطف غسل کے فعل پر ہوگا یعنی
﴿فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَ اَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ﴾ (المائدہ: ۶)