کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 246
امام بیہقی کہتے ہیں زید بن ثابت کے فرمان کا مطلب ہے کہ حروف میں اپنے سے پہلے لوگوں کی اتباع کرنا سنتِ متبعہ ہے، اس لیے مصحف الامام کی مخالفت جائز ہے اور نہ ہی مشہور قراء ت کی مخالفت جائز ہے، خواہ لغت میں اس کی گنجائش بھی ہو۔ بعض علماء نے اقسام قراء ات کا خلاصہ چھ انواع میں بیان کیا ہے۔ ۱- متواتر: وہ قراء ت جسے ایک ایسی جماعت نے ایک ایسی جماعت سے نقل کیا ہو جن کا جھوٹ پر متفق ہو جانا محال ہو، اسی طرح یہ سلسلہ آخر تک پہنچتا ہو۔ زیادہ تر قراء ت اسی نہج پر ہے۔ ۲- مشہور: جو ایسی سند سے ثابت ہو جس میں تواتر کی شرط نہ پائی جاتی ہو، نیز عربی زبان اور کتابت کے مطابق اور قراء کے ہاں معروف ہو۔ اس میں غلطیاں اور شذوذ بھی نہ پائے جاتے ہوں ۔ اس قسم کے بارے علماء نے کہا ہے کہ یہ قراء ت کی جاسکتی ہے۔ ۳- آحاد: جس کی سند صحیح ہو لیکن کتابت اور عربی زبان کے مخالف ہو یا اسے متواتر اور مشہور کی طرح شہرت حاصل نہ ہو۔ اس کی قراء ت نہیں کی جا سکتی، اس کی مثال سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: ﴿مُتَّکِئِینَ عَلٰی رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِیٍّ حِسَانٍ.﴾ (الرحمن: ۷۶) میں رَفَافٍ اور عَبَاقِرِی پڑھا۔ (اخرجہ الحاکم) اسی طرح سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ آیت: ﴿لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ﴾ (التوبہ: ۱۲۸) میں ف کو منصوب پڑھتے تھے۔ (یعنی اَنْفَسِکُمْ) (اخرجہ الحاکم) ۴- شاذ: وہ قراء ت جس کی سند صحیح نہ ہو جیسے ﴿مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ .﴾ (الفاتحہ: ۳) میں مٰلِک کو ماضی کے صیغہ کے ساتھ (مَلَکَ) اور یوم کو منصوب پڑھنا۔ ۵- موضوع: جس کی کوئی سند نہ ہو۔ ۶- مدرج: تفسیر کی غرض سے قراء ت میں کوئی چیز بڑھا دینا، جیسے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی قراء ت میں ۔