کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 245
(۱) عربی زبان سے موافقت (۲) کتابت مصحف سے مطابقت اور (۳) صحیح سند جمع ہو جائیں تو وہ قراء ت صحیح ہے، اگر ان میں سے کوئی ایک یا زیادہ ارکان کم ہوں تو وہ ضعیف، شاذ یا باطل ہوگی۔
بڑی عجیب بات ہے کہ ان تمام قواعد وضوابط کے بعد بھی بعض نحوی صحیح قراء ت کو غلط کہتے ہیں ۔ صرف اس لیے کہ اس میں ان کے نحوی ان قواعد کی خلاف ورزی ہوتی ہے جن پر لغت کے صحیح ہونے کا قیاس کرتے ہیں ۔ مناسب یہی ہے کہ ہم صحیح قراء ت کو لغوی اور نحوی قواعد کے لیے معیار بنائیں نہ ان قواعد کو قرآن کے لیے معیار بنائیں ؛ کیوں کہ قرآن لغوی قواعد کے حصول کا اولین مصدر ہے جب کہ قرآن کریم کا اعتماد قراء کی نقل اور روایت کے صحیح ہونے پر ہے، لغت کی خواہ کوئی بھی قسم ہو۔
ابن الجزری قراء ت کے صحیح ہونے کی پہلی شرط پر تعلیق لکھتے ہوئے کہتے ہیں : اس ضابطہ میں ہمارا یہ کہنا کہ، وہ کسی بھی وجہ (صورت) میں ہو، اس سے مراد نحوی صورت ہی ہے وہ نحوی صورت فصیح ہو یا فصیح تر، اس پر سب کا اتفاق ہو یا غیر مضر اختلاف پایا جاتا ہو، وہ قراء ت بھی عام ہو چکی ہو اور ائمہ نے اسے صحیح سند سے لیا ہو تو سمجھ لیجیے یہ سب سے بڑی بنیاد اور سب سے مضبوط ستون ہے۔ بہت سی قراء تیں ایسی ہیں جن کا نحوی اور کچھ دوسرے لوگوں نے انکار کیا، لیکن ان کے انکار کا کوئی اعتبار نہیں کیا گیا۔ مثلاً بَارِئْکم اور یَا مُرْکم کے اسکان، والارحام کو زیر کے ساتھ پڑھنے، لِیُجْزِی قوماً کو منصوب پڑھنے اور قَتَلَ اَوْلَادِھِمْ شُرَکَائُھُم میں دونوں مضاف اسموں میں فصل کرنے میں ان لوگوں کا انکار ہے۔ (الاتقان ۱/۷۵)
ابوعمروالدانی کہتے ہیں : ائمہ قراء حروفِ قرآن میں لغت میں معروف یا عربی میں بہترین قیاس پر نہیں بلکہ مضبوط اثر یا صحیح روایت پر اعتماد کرتے ہیں ، پھر جب روایت ثابت ہو جائے تو عربی قیاس یا مشہور لغت سے اس کی تردید نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ قراء ت سنتِ متبعہ ہے جسے قبول کرنا ضروری ہے۔ چناں چہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
((القراء ۃُ سُنَّۃٌ متَّبَعَۃٌ۔))
یعنی قراء ت ایک ایسی سنت ہے جس کی مسلسل پیروی ہو رہی ہے۔ (اخرجہ سعید بن منصور فی سننہ)