کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 244
﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم.﴾ (الفاتحہ: ۵)
میں لفظ الصراط کو ص سے لکھا جو حقیقت میں س سے بدلا ہوا ہے، جب کہ س جو کہ اصل تھی اسے چھوڑ دیا تاکہ س کی قراء ت ہو سکے اگر چہ لکھنے میں کسی قسم کا کوئی اختلاف ہی پیدا ہو جائے۔ اس لیے اسے معروف لغت کے مطابق ہی لکھا گیا ہے۔ اس طرح یہ دونوں برابر ہوں گے اور اس میں اشمام کی قراء ت کا احتمال بھی پایا جاتا ہے۔ اسی ہی چیز کو احتمالی موافقت کہا جاتا ہے۔ جیسے: ﴿مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ.﴾ (الفاتحہ: ۳)
کی قراء ت ہے، اسے تمام مصاحف میں الف کے بغیر مٰلِک لکھا گیا ہے۔ اگر اسے مَلِک الف کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ احتمالی (ممکنہ) موافقت ہوگی، اس طرح کی اور بھی مثالیں ہیں ۔ کتابت کی موافقت میں قراء ت کے اختلاف کی مثال تَعْلَمُوْنَ کو تا اور ی کے ساتھ اسی طرح یَغْفِرْلَکُمْ کو یا اور نون نے ساتھ پڑھنا ہے، اسی طرح کی اور مثالیں بھی ہو سکتی ہیں ، جن میں کتابت کا نقاط سے خالی ہونا، اسی طرح اعرابی لحاظ سے کسی حرف کا حذف یا موجود ہونا یہ ایسی چیزیں ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین علمِ ہجاء میں خوب دسترس اور ہر علم میں خوب فہم رکھتے تھے۔
صحیح قراء ت کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ تمام مصاحف سے مطابقت رکھتی ہو، بلکہ کسی ایک مصحف میں اس کا ثابت ہونا ہی کافی ہے۔ جیسا کہ ابن عامر آیت
﴿وَ الزُّبُرِ وَ الْکِتٰبِ الْمُنِیْرِ.﴾ (آل عمران: ۱۸۴)
میں الزبر اور الکتاب کے ساتھ یاء لگاتے ہیں اور یہ چیز مصحف شامی سے ثابت ہے۔
۳- قراء ت صحیح سند سے ثابت ہو:
قراء ت کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحیح سند سے ثابت ہو؛ کیوں کہ قراء ت سنتِ متبعہ ہے اس لیے اس میں روایت کی صحت اور نقل کی سلامتی پر اعتماد ہو گا۔ اسی لیے اہلِ عرب کچھ قراء ات انکار کرتے ہیں جو صرف قیاس کی وجہ سے صادر ہوئی ہیں یا لغوی لحاظ سے کمزور ہیں ، لیکن ائمہ قراء ان کی ناپسندیدگی کی پروا نہیں کرتے۔
صحیح قراء ت کے یہی مذکورہ بالا اصول وضوابط ہیں ، اگر کسی قراء ت میں یہ تینوں چیزیں