کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 243
احاد کہا جاتا ہے۔ شاذ: بعض صحابہ اور دیگر لوگوں کی اپنی قراء ات کو شاذ کا نام دیا جاتا ہے۔ نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ دس قراء کی قراء ت متواترہ کہلاتی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اصل اعتماد قواعد وضوابط پر ہے خواہ وہ قراء سبعہ کی ہو، یا قراء عشرہ کی، یا پھر کسی اور کی۔ ابوشامہ ’’المرشد الوجیز‘‘ میں کہتے ہیں : کوئی انسان اس بات سے دھوکہ نہ کھائے کہ ان سات قراء میں سے کسی بھی ایک قاری کی طرف منسوب قراء ت پر صحت کے لفظ اطلاق کیا جا سکتا ہے اور یہ اسی طرح نازل ہوئی ہے، بلکہ یہ کچھ ضابطوں کے تحت درست مانی جائے گی اور اس وقت کوئی بھی مصنف اسے نقل کرنے کے بعد صرف اسے ہی درست قرار نہیں دے گا بلکہ یہ جب کسی اور قاری سے بھی منقول ہوگی تو اسے بھی دیکھا جائے گا اور اعتماد اسی قراء ت پر ہوگا جس میں تمام اوصاف جمع ہوں نہ کہ صرف قاری کی نسبت پر۔ چناں چہ اس لحاظ سے ہر قراء ت جو ان سات قراء یا ان کے علاوہ دیگر قراء کی طرف منسوب ہے، اس کی دو قسمیں ہیں : (۱) متفق علیہ (۲) شاذ، لیکن ان سات قراء کی شہرت اور ان کی زیادہ تر قراء ت متفق علیہ ہونے کی وجہ سے دل ان سے منقول قراء ت کی طرف مائل ہوتا ہے۔ (الاتقان: /۷۵) ان قراء کے نزدیک قراء ت کے صحیح ہونے کے لیے ضابطوں کا معیار درج ذیل نکات کی روشنی میں ہے۔ ۱- قراء ت کی عربی زبان سے موافقت: قراء ت کی عربی زبان سے موافقت ضروری ہے وہ کسی بھی صورت میں ہو، فصیح ہو یا فصیح تر؛ کیوں کہ قراء ت ایک سنت متبعہ ہے، جسے قبول کرنے کے لیے اسناد کی ضرورت ہے نہ کہ رائے کی۔ ۲- قراء ت کا کسی بھی مصحف عثمانی کے موافق ہونا: دوسرا ضابطہ یہ ہے کہ قراء ت کسی ایک مصحف عثمانی سے موافقت رکھتی ہو، خواہ احتمالی طور پر ہی ہو؛ کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے معروف لغات کے مطابق مصاحفِ عثمانیہ کو لکھنے کی کوشش کی تھی۔ مثلاً انہوں نے: