کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 242
سے ایک امام کو منتخب کیا ہے۔ پانچ کا ذکر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان شہروں کی طرف جو مصاحف بھیجے تھے ان کی تعداد پانچ تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سات مصحف بھیجے تھے۔ پانچ یہ (مدینہ، مکہ، کوفہ، بصرہ، شام)، ایک مصحف یمن والا اور ایک بحرین میں لیکن ابن جبر کو ان دو مصاحف کے بارے علم نہیں تھا۔ جب کہ ابن مجاہد مصاحف کی تعداد کا لحاظ رکھنے کا ارادہ کر چکے تھے اس کے لیے انہوں نے بحرین اور یمن کے مصاحف کی جگہ دو قاری لا کر تعداد کو مکمل کر لیا تھا۔ اسی لیے علماء کہتے ہیں : سات قراء کی قراء ت کو لے کر باقیوں کی قراء ت کو چھوڑ دینے کے بارے کوئی حدیث یا قولِ صحابی نہیں ملتا، بلکہ بعض متاخرین علما کا ان پر اتفاق ہو گیا اسی طرح یہ مشہور ہوگئے، اگر ابن مجاہد ان سات کے ساتھ کسی اور کا ذکر بھی کر دیتے تو وہ بھی مشہور ہو جاتے۔ ابوبکر ابن العربی کہتے ہیں : ان سات قراء کی قراء ت کو ایسے جواز کے ساتھ متعین کرنا جائز نہیں ہے جس کی وجہ سے ان جیسے یا ان سے بہتر قراء مثلاً ابوجعفر، شیبہ اور اعمش جیسے لوگوں کی قراء ت کو جائز نہ سمجھا جائے، قراء میں سے بہت سے ائمہ نے یہ بات کہی ہے۔ ابوحیان کہتے ہیں : ابن مجاہد اور ان کے متبعین کی کتابوں میں مشہور قراء ات میں سے بہت کم کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ابوعمرو بن العلاء سے روایت کرنے والے سترہ قاری مشہور ہوئے، لیکن ابن مجاہد نے صرف یزیدی کا تذکرہ کیا ہے۔ اسی طرح یزیدی سے روایت کرنے والے دس آدمی ہیں انہوں نے صرف سوسی اور الدوری پر اکتفا کیسے کیا؟ حالانکہ ان دونوں کو باقی لوگوں پر کوئی خاص برتری حاصل نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ سب راوی قراء ت لینے اور ضبط واتقان میں مشترک تھے اور مجھے علمی نقص کے علاوہ اس کا کوئی اور سبب نظر نہیں آتا۔ (انظر الاتقان: ۱/۸۰) قراء ات کی اقسام اور احکام وضوابط بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ قراء ات کی تین اقسام ہیں : (۱) متواترہ (۲) احاد (۳) شاذ متواترہ: معروف سات قراء سے منقول قراء ات متواترہ کہلاتی ہیں ۔ آحاد: سات قراء کے علاوہ تین قراء، جنہیں ملانے سے دس کی تعداد پوری ہوتی ہے، کی قراء ت کو