کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 241
امام ابن الجزری اپنی کتاب ’’النشر‘‘ میں لکھتے ہیں : سب سے معتبر امام جنہوں نے قراء ات کو سب سے پہلے ایک کتاب میں جمع کیا وہ ابوعبید قاسم بن سلام ہیں ، انہوں نے ان سات مشہور قراء کے ساتھ تقریباً پچیس قاریوں کا ذکر کیا ہے۔ ان کی وفات ۲۲۴ ہجری میں ہوئی۔ فرماتے ہیں : ان کے بعد ابوبکر احمد بن موسیٰ بن عباس بن مجاہد جنہوں نے صرف ان سات قراء کی قراء ات پر اکتفا کیا، ان کی وفات ۳۲۴ ہجری میں ہوئی۔ کہتے ہیں : اس بارے ہم نے اس لیے تفصیل بیان کی ہے کہ ہمیں یہ خبر ملی کہ کچھ بے علم لوگوں نے کہا ہے کہ صحیح قراء ات وہی ہیں جو ان سات لوگوں سے مروی ہیں بلکہ اکثر جاہلوں میں یہ بات مشہور ہے کہ صحیح قراء ات وہی ہیں جو شاطبیہ اور تیسیر میں ہیں ۔[1]
سات مشہور قراء کے علاوہ بھی ان جیسے یا ان سے زیادہ جلالتِ علمی رکھنے والے قراء گزرے ہیں ، لیکن اس کے باوجود صرف انہی سات قراء ات پر اکتفا کی وجہ یہ ہے کہ ائمہ قراء سے روایت کرنے والے بہت زیادہ لوگ تھے چناں چہ جب ان کی ہمتیں جواب دے گئیں تو انہوں نے اسی قراء ت کو کافی سمجھا جو خطِ مصحف کے مطابق اور حفظ وضبط میں آسان تھی اور انہوں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو ثقاہت وامانت میں معروف تھے، ساری زندگی انہوں نے قراء ت کو لازم رکھا اور ان کی قراء ت لینے پر اتفاق تھا۔ لہٰذا انہوں نے ہر شہر کے لیے ایک امام مقرر کر لیا، ان کے علاوہ دیگر ائمہ جیسے یعقوب حضرمی، ابو جعفر المدنی اور شیبہ بن نصاع وغیرہ کی قراء ات کو بھی نہیں چھوڑا۔
قراء ات کے عنوان پر تالیفات کرنے والوں نے بھی انہی سات ائمہ کا تذکرہ کیا ہے، ان ائمہ کے مشہور ہونے کی وجہ یہی ہے کہ لکھنے والوں نے ان کا ذکر کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے، حالانکہ ان سے بہتر قراء بھی موجود تھے۔ اسی وجہ سے لوگوں کو وہم ہوگیا کہ جن لوگوں کا تالیفات میں ذکر ہے صرف وہی قراء ات کے امام ہیں ۔
ابن جبرالمکی نے قراء ات پر کتاب لکھی جس میں انہوں صرف پانچ کا تذکرہ کیا اور ہر شہر
[1] شاطبیہ ایک منظومہ ہے جو امام ابو محمد قاسم الشاطبی (المتوفی: ۵۹۰ھ) کی طرف منسوب ہے، اس میں انہوں نے کتاب ’’التیسیر‘‘ کو ۱۱۷۳ اشعار میں منظوم کیا ہے اور اس کا نام ’’حرز الامانی ووجہ التھانی فی القراء ات السبع المثانی‘‘ رکھا ہے۔ جب کہ ’’التیسیر فی القراء ات السبع‘‘ ابو عمروالدانی کی کتاب ہے جن کا تعلق ائمہ قراء سے تھا۔