کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 240
رہے سات حروف جن کا پیچھے تفصیلی تذکرہ گزر چکا ہے تو وہ ان سات قراء ات کے علاوہ ہیں اور وہ حروف (عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ) جب فتوحات کا سلسلہ وسیع ہوا تھاختم ہو گئے تھے (صرف ایک حرف کی قراء ت باقی رہی تھی) چناں چہ حروف کی وجہ سے فتنہ وفساد کا اندیشہ باقی نہیں رہا تھا؛ کیوں کہ عہد عثمان رضی اللہ عنہ میں صحابہ نے لوگوں کو ایک حرف یعنی حرفِ قریش پر جمع کر دیا تھا اور اسی میں مصاحف تیار کیے تھے، جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں ۔
قراء کی کثرت کے باوجود قراء ات کو سات تک محدود کرنے کی وجہ مذکورہ سات قراء کی قراء اتِ متفقہ ہیں ، جب کہ اہلِ علم نے ان کے علاوہ بھی تین قراء کا انتخاب کیا ہے ان کی قراء ات بھی درست اور متواتر وہ ہیں : ابوجعفر یزید بن القعقاع المدنی، یعقوب بن اسحاق حضرمی اور خلف بن ہشام۔ یہ تین اور اول الذکر سات قراء کرام قراء اتِ عشر کے امام ہیں ۔ ان دس قراء ات کے علاوہ دیگر قراء ات شاذ ہیں یعنی یزیدی، حسن، اعمش اور ابن جبیر وغیرہ کی قراء ات۔
قراء اتِ عشر حتی کہ قراء اتِ سبعہ میں بھی شذوذ پائے جاتے ہیں ۔ سات قراء کی قراء ات کو تیسری صدی کے متاخرین علماء نے اختیار کیا، حالانکہ جن قراء کی قراء ت قابل اعتبار تھی وہ بہت زیادہ تعداد میں تھے۔ دوسری صدی کے آخر تک بصرہ کے لوگوں نے ابن عمرو اور یعقوب، کوفہ کے لوگوں نے حمزہ اور عاصم، شام کے لوگوں نے ابن عامر، مکہ کے لوگوں نے ابن کثیر اور مدینہ کے لوگوں نے نافع کی قراء ت کو اپنائے رکھا اور یہی سات لوگ ائمہ قراء ات تھے۔ پھر تیسری صدی کے آخر میں ابو بکر بن مجاہد نے یعقوب کی جگہ الکسائی کو متعارف کروایا۔
امام سیوطی کہتے ہیں : قراء ات میں سب سے پہلے ابو عبید قاسم بن سلام نے تصنیف لکھی پھر احمد بن جبیر کوفی نے، پھر قالون کے شاگرد اسماعیل بن اسحاق المالکی، ان کے بعد ابو جعفر بن جریری الطبری نے پھر ابوبکر محمد بن احمد بن عمر الدجونی نے اور ان کے بعد ابوبکر بن مجاہد نے، پھر ان کے دور میں اس کے بعد بہت تالیفات ہوئیں ، جن میں سے کچھ جامع تھیں اور کچھ جزئی، اسی طرح کچھ مختصر تھیں اور کچھ طویل۔ نیز ائمہ قراء ات بے شمار ہیں ان کے طبقات کو حافظ الاسلام ابوعبداللہ الذہبی اور ان کے بعد حافظ القراء ابوالخیر ابن الجزری نے تصنیف کیا ہے۔ (الاتقان ۱/۷۳)