کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 24
’’اپنی طاقت کے مطابق ان (کافروں ) کے لیے قوت تیار رکھو۔‘‘
(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) ’’آگاہ رہو! قوت سے مراد تیراندازی ہے۔‘‘
اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی بھی کوشش ہوتی تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سیکھیں ، اسے یاد کریں اور سمجھیں ، اور ایسا کرنا ان کے لیے اعزاز کی بات تھی۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم میں سے جب کوئی شخص سورۃ البقرہ اور آل عمران پڑھ لیتا تو وہ ہم میں قابلِ احترام ہو جاتا۔ (رواہ احمد فی مسندہ) نیز صحابہ کرام قرآن پر عمل کرنے اور اس کے احکامات کے آگے سرتسلیم خم کر دینے کے بھی خوگر تھے۔
ابوعبدالرحمان السلمی فرماتے ہیں : ہمیں قرآن کی تعلیم دینے والے صحابہ، عثمان بن عفان، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اور دیگر لوگوں نے ہمیں بتایا کہ ہم جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیات سیکھ لیتے تو جب تک ان میں پائے جانے والے علم وعمل کو اچھی طرح نہ سمجھ لیتے، آگے نہیں بڑھتے تھے۔ وہ فرماتے ہیں : ہم نے قرآن کے ساتھ علم وعمل بھی سیکھا۔ (مصنف عبدالرزاق نے ان الفاظ کے قریب قریب الفاظ سے روایت کی ہے۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو اپنی طرف سے قرآن کے علاوہ کوئی اور چیز لکھنے کی اجازت اس ڈر سے نہیں دی تھی کہ کہیں قرآن کسی اور چیز کے ساتھ خلط ملط نہ ہو جائے۔
امام مسلم رحمہ اللہ نے سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری باتیں مت لکھو، جس نے قرآن مجید کے علاوہ میری باتیں لکھی ہیں وہ انہیں مٹا دے، میری طرف سے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن جس نے میری طرف جھوٹ منسوب کیا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘
اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو حدیث لکھنے کی اجازت دے دی تھی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک اور خلافتِ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما میں قرآن کے متعلق تفسیری وضاحتوں کے معاملے میں زبانی بیان پر ہی اعتماد ہوتا تھا۔
چناں چہ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور آیا اور حالات کے تقاضوں نے مسلمانوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیا (جس کی تفصیل آگے اپنے مقام پر آئے گی) تو یہ کام مکمل ہوا اور اسے