کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 239
ابوعبدالرحمان السلمی، سعید بن جبیر، نخعی اور شعبی۔
بصرہ میں ابو عالیہ، ابو رجاء، نصر بن عاصم، یحییٰ بن یعمر، حسن، ابن سیرین اور قتادہ۔
جب کہ شام میں مغیرہ بن ابی شہاب مخزومی صاحب عثمان، اور ابوالدرداء کے شاگرد خلیفہ بن سعد رحمہم اللہ مشہور ہوئے۔
عہد تابعین میں پہلی صدی کے آخر تک ایک ایسی قوم تیار ہوگئی تھی جنہوں نے صرف ضبطِ قراء ت پر ہی توجہ دی جو کہ وقت کا تقاضا تھا اور ان حضرات نے اسے بطور علم متعارف کروایا جس طرح دیگر شرعی علوم تھے۔ اس طرح اس فن میں یہ لوگ امام بن گئے۔
چناں چہ تابعین اور تبع تابعین میں سے سات ائمہ مشہور ہوئے جن کی طرف آج بھی قراء ت کی نسبت کی جاتی ہے۔ مدینہ میں ابوجعفر زید بن القعقاع اور نافع بن عبدالرحمان، مکہ میں عبداللہ بن کثیر اور حمید بن قیس الاعرج، کوفہ میں عاصم بن ابی النجود اور سلیمان الاعمش، پھر حمزہ اور الکسائی بصرہ میں عبداللہ بن ابی اسحاق، عیسیٰ بن عمرو، ابوعمرو بن العلاء اور عاصم الجحدری پھر یعقوب الحضرمی جب کہ شام میں عبداللہ بن عامر، اسماعیل بن عبداللہ بن المھاجر، پھر یحییٰ بن حارث اور ان کے بعد شریح بن یزید حضرمی۔
وہ سات ائمہ جن کا دنیا کے ہر کونے میں چرچا ہوا، وہ یہ تھے:
ابوعمرو، نافع، عاصم، حمزہ، الکسائی، ابن عامر اور عبداللہ بن کثیر رحمہم اللہ ۔(انظر الاتقان، صفحۃ ۷۲،۷۳، ج۱)
صحیح ترین رائے کے مطابق ان سات قراء کی قراء ت سات حروف کے علاوہ ہے اگرچہ ان میں سات کے عدد کی موافقت ہے، کیوں کہ قراء ت ائمہ کرام کا مذہب اور اجماع کے ساتھ باقی ہیں ، لوگ انہی قراء ات کے ساتھ قرآن پڑھتے ہیں ۔
ان قراء ات کے وجود میں آنے کا سبب لہجے، طرزِ نطق، ادائیگی کے طریقے مثلاً تفخیم، ترقیق، امالہ، ادغام، اظہار، اشباع، مد، قصر، تشدید، تخفیف اور اس طرح کی دیگر اشیاء کا اختلاف تھا اور یہ سب کی سب چیزیں ایک ہی حرف یعنی قریش کی زبان میں ہیں ۔ (جس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے امت کو متفق کیا تھا)